تھے۔ یہی وجہ ہے تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد اس فتنہ کے احتساب میںمسلمانان ہند نے والہانہ جوش وجذبہ سے حصہ لیا۔ خاص اس موضوع پر ہمارے علما وفضلاء کی تصنیفات اگر جمع کی جائیں تو تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہوگی۔ قیام پاکستان کے بعد اسی مسئلہ پر دو زبردست تحریکیں چلیں۔ ایک ۱۹۵۳ء میں دوسری ۱۹۷۴ میں پوری ملت اسلامیہ پاکستان نے بلا لحاظ مسلک ومکتب ان میں بھرپور حصہ لیا۔ بالآخر حق کا بول بالا ہوا اور ۷ ستمبر ۱۹۷۴ کو پاکستانی پارلیمان نے دستور پاکستان کی دفعہ ۲۶۰ میں ایک تاریخی شق کا اضافہ کرکے آئین وقانون کے مقاصد کے ضمن میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔
دفعہ ۱۰۶ میں غیر مسلم اقلیتوں عیسائیوں، ہندوئوں، سکھوں، بدھوں، پارسیوں اور اچھوتوں کے ساتھ قادیانیوں کا اضافہ کرکے ان کے لئے الگ اسمبلی نشستیں مخصوص کی گئیں۔ بھٹو حکومت نے تمام مسلمان جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل کے ساتھ اس آئینی ترمیم کے مطابق قانون سازی کا الگ وعدہ کیا۔ مگر افسوس بھٹو صاحب اس عہد کو پورا کرنے سے قاصر رہے۔
لاہور ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے ڈیرہ غازیخان میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے مابین ایک ’’مسجد‘‘ کے نزاع کے سلسلہ میں فیصلہ صادر کیا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور (۱۲؍نومبر۱۹۷۷ئ) کی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزائیوں نے ڈیرہ غازیخان میں پاکستان بننے سے پہلے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ پارلیمان کے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ کے بعد (کہ وہ آئین وقانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہیں) مسلمانوں نے سول جج ڈیرہ غازیخاں کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا کہ مرزائی اسلامی قانون کی رو سے (اپنی عبادت گاہ کا نام ’’مسجد‘‘ نہیں رکھ سکتے۔ جس پر سول جج مذکور نے مسلمانوں کے حق میں حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے مرزائیوں کی عبادت گاہ کو (جسے مرزائی ’’مسجد‘‘ کہتے ہیں) سربمہر کردیا۔ مرزایئوں نے ڈسٹرکٹ جج ڈیرہ غازیخان کی عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ مگر ڈسٹرکٹ حج موصوف نے بھی اس حکم کوبحال رکھا۔ جس پر مرزائی یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں لے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کا فیصلہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا قادیانیوں کے حق میں صادر کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اس قانون سازی کا نہ ہونا ہے۔ جو پارلیمنٹ کے فیصلے کے بعد ہونی چاہئے تھی۔