اتنا تو ہوگا مسلمان سو ڈیڑھ سو سال اس فتنہ کی سرکوبی میں لگا رہے۔ علامہ اقبالؒ ایسا مفکر انسان جس کی نظر بیک وقت قرآن وحدیث، تاریخ اقوام عالم اور قوموں کے اسباب عروج وزوال پر تھی۔ اس کے لئے بھلا کیونکر ممکن تھا وہ قادیانیت کی مضرت رسانی دیکھے اور چپ رہے۔
چنانچہ انہوں نے اس فتنہ کا محاکمہ کیا اور حق یہ ہے کہ حق محاکمہ ادا کردیا۔ وہ نہ صرف اعتقادی وفکری اعتبار ہی سے اس فتنہ کو ملت اسلامیہ کے لئے سم قاتل سمجھتے تھے بلکہ عملی ونجی زندگی میں بھی قادیانیوں کے سخت خلاف تھے۔ (تفصیل کے لئے راقم کی کتاب اقبال اور قادیانی کا مطالعہ کیا جائے)
ایک دفعہ ان کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد صاحب نے اپنی ایک بیٹی کے سلسلہ میں آمدہ ایک رشتے کی بابت حضرت علامہؒ کی رائے دریافت کی۔ یاد رہے لڑکا قادیانی تھا۔ حضرت علامہؒ نے فرمایا بھائی صاحب اگر میری اپنی بیٹی ہوتی تو میں ہرگز ہرگز یہاں اس کی شادی نہ کرتا۔ (اقبال درون خانہ ص۸ از خالد نظیر صوفی) محترم میاں امیر الدین صاحب کا ’’مضمون علامہ اقبال چند یادیں چند باتیں‘‘ اس وقت میرے سامنے پڑا ہے جو آج ہی ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں شائع ہوا ہے۔ میاں صاحب موصوف حضرت علامہؒ کے بارے میں ایک نہایت مستند’’زندہ ماخذ‘‘ ہیں۔ (خدا تعالیٰ انہیں تادیر سلامت رکھے) آپ لکھتے ہیں ایک بار ایک قادیانی رکن مرزا یعقوب بیگ کو (انجمن حمایت اسلام کے) اجلاس سے نکال دیا کہ مرزائی انجمن کا رکن نہیں ہوسکتا۔ آپ کو ختم نبوت پر کامل یقین تھا اور یہ برداشت نہ کرسکتے تھے کہ کوئی توہین رسالتؐ کرے۔
(نوائے وقت ۹دسمبر ۱۹۷۷)
پنڈت جواہر لال نہرو’’ A Bunch of old Letter ‘‘میں حضرت علامہ کا وہ خط خود شائع کرچکے ہیں جس میں حضرت علامہ کا یہ تاریخی فقرہ درج ہے: "I have no doubt in my mind that the Ahmadis are traitors both to Islam and to India" (page 18) کہ میں اپنے ذہن میں اس امر کے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں غدار ہیں۔
پاکستانی پارلیمان کا قادیانیوں کے خلاف فیصلہ
قادیانی فتنہ کی بابت جو جذبات حضرت علامہؒ کے تھے وہی تمام ملت اسلامیہ کے