قادیانی مسئلہ
(آئینی ترمیم کے مطابق قانون سازی کا تقاضا کرتا ہے)
قادیانیت محض ایک مذہبی مسئلہ ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں یہ اپنے مخصوص احوال وظروف کے پیش نظر ایک ایسا قومی وملی، سیاسی واجتماعی اور تہذیبی ومعاشرتی مسئلہ ہے جو براہ راست ہمارے آئین ودستور سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے، جس کے حدود مقرر ہیں، یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء کرامؑ پر ایمان اور حضرت رسول ﷺ کی ختم رسالت پر ایمان۔ در اصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان وجۂ امتیاز ہے اور اس بات کے لئے فیصلہ کن کہ فلاں فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں؟ …… مثال کے طور پر برہمو خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور حضرت رسول ﷺ کو خدا کا پیغمبر بھی مانتے ہیں مگر انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ (قادیانیوں کی طرح) انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور حضرت رسول کریمﷺ پر سلسلہ وحی ورسالت کو ختم نہیں جانتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوا لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یاملت کے حضرت رسول کریمﷺ کی شخصیت کا مرہون منت ہے۔ ہر شخص کو یہ معلوم ہے کہ ایک یہودی جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اعتقاد رکھے اس کا شمار امت موسویہ میں ہوتا ہے جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آتا ہے تو عیسائی کہلاتا ہے۔ گویا اس کی امت (سوسائٹی) تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک یہودی یا عیسائی حضرت نبی کریمﷺ پر ایمان لے آئے تو اس کا شمار امت محمدیہؐ میں ہوگا اگر آنجناب رسالت مآبﷺ کے بعد وحی ونبوت کا دروازہ کھول دیا جائے تو ظاہر ہے امت محمدیہؐ کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی۔
احساس ملت
عقیدہ ختم نبوت کی یہی وہ قوت آفرینی ہے جس کے باعث ملت اسلامیہ شروع ہی سے اس ضمن میں بڑی حساس رہی ہے۔ امام موفق بن احمد المکی نے امام ابو حنیفہؒ کے ’’مناقب‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ان کے عہد میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے صدق اور کذب کا معیار اپنے دلائل اور’’معجزات‘‘ پر رکھا۔ اس پر امام صاحب سے مسئلہ پوچھا گیا تو اس متنبی سے