اس کے بعد بشرط صحت ملا نے اس کی تاویل کی ہے۔ بہرحال اس حدیث کا وہی مطلب ہے جو اس حدیث کا ہے۔ ’’لوکان بعدی نبینا لکان عمر‘‘ (مسند احمد، ترمذی) یعنی یہ کہ اگر میرے بعد نبی ہونا ممکن ہوتا تو عمرؓ بن خطاب نبی ہوتے۔ لیکن چونکہ ممکن نہیں اس لئے نہ وہ اور نہ کوئی اور نبی ہوسکتا ہے۔ (ندوی)
۴۵؎ صحیح یہی ہے کہ واؤ حالیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں پر حجت ہوں گے اور مسلمانوں کی تائید فرمائیں گے۔ مسلمانوں کا امام الگ ہوگا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہ ہوں گے۔ (ندوی)
۴۶؎ مجھے جہاں تک علم ہے نزول مسیح (علیہ السلام) کا انکار کسی نے نہیں کیا۔ معتزلہ کی کتابیں نہیں ملتیں جو حال معلوم ہو۔ البتہ ابن حزم وفات مسیح (علیہ السلام) قائل تھے۔ ساتھ ہی نزول کے بھی۔ (ندوی)
۴۷؎ افسوس حضرت علامہؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کتاب عدم سے وجود میں نہ آسکی۔ ۴۸؎ مولانا ابوالکلام آزادؒ کے یہ بیانات تلاش بسیار کے باوجود مجھے کہیں نہیں مل سکے ہیں۔ اگر کسی صاحب کے پاس موجود ہوں تو وہ مطلع فرمائیں۔ مرتب ان کا شکر گزار ہوگا۔
۴۹؎ اس سے اس امر کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت علامہؒ کو فتنہ قادیانیت کے استیصال سے کس قدر گہری دلچسپی تھی۔
۵۰؎ علامہ ندویؒ نے جواب میں لکھا ’’لفظ بروز‘‘ کے معنی نو ظہور کے ہیں۔ مگر اس کے اصطلاحی معنی ملاحدہ عجم کی پیداوار ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ (مکاتیب اقبال ج۱ ص۱۹۹ حاشیہ)
۵۱؎ جہاں تک مرتب کو معلوم ہے۔ حضرت علامہؒ اپنی بیماری کے سبب، اپنے اس ارادے کو بھی عملی جامہ نہ پہنا سکے تھے۔ بہرحال اس سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے پیش نظر قادیانی فتنے کے سبھی چہرے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ایک ایک کر کے ان تمام سے نقاب الٹ دی جائے۔
۵۲؎ جن دنوں حضرت علامہؒ قادیانتی کی بیخ کنی میں مصروف تھے، انہی دنوں میں پروفیسر الیاس برنی مرحوم نے ’’قادیانی مذہب‘‘ کے نام سے قادیانی معتقدات کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا کہ وہ بالکل ننگا ہوکر سامنے آگئی۔ اس کتاب کا ایک نسخہ مرحوم نے حضرت علامہؒ کی خدمت میں بھی بھیجا اور شاید اس پر حضرت علامہؒ کی رائے چاہی۔ جواب میں آپ نے مذکورہ خط لکھا۔