۵۳؎ علامہ اقبالؒ اور مجلس احرار کی بروقت مداخلت اور کامیاب مزاحمت کے سبب قادیانیوں نے ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر کو اپنے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھ کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ جس طرح اس تحریک کو ناکام بنانا چاہا۔ مندرجہ بالا خط اس کی پوری پوری نشاندہی کرتا ہے۔ حضرت علامہ نے یہ خط پٹنہ کے ایک معروف وکیل جناب سید نعیم الحق صاحب کے نام لکھا۔ جنہوں نے اس دور میں مظلومین کشمیر کی بلامعاوضہ قانونی معاونت کی تھی۔
۵۴؎ حضرت علامہؒ کے بیان قادیانی اور جمہور مسلمان پر تنقید کرتے ہوئے ایک قادیانی ہفتگی لائٹ لاہور نے لکھا کہ اور بہت سے بڑے مفکروں کی مانند ڈاکٹر اقبال بھی الہام پر یقین نہیں رکھتے۔ اس اتہام کے متعلق جب ایک پریس کے نمائندہ نے حضرت علامہؒ سے سوال کیا تو آپ نے مذکورہ وضاحت فرمائی۔
۵۵؎ جب حضرت علامہؒ سے اس حدیث کے متعلق استفسار کیاگیا۔ جس کا لائٹ نے حوالہ دیا تھا اور جس میں ہر صدی کے آغاز میں ایک مجدد کے آنے کی خبر دی گئی ہے تو آپ نے مندرجہ بالا جواب ارشاد فرمایا۔
۵۶؎ جب حضرت علامہؒ کی توجہ ایک دوسرے قادیانی ہفت نامے سن رائز Sun Rise لاہور کے ایک خط کی طرف مبذول کرائی گئی جس میں علامہ مرحوم کی ایک ۱۹۱۰ئ،۱۹۱۱ء کی تقریر کا حوالہ دے کر ان پر ’’تناقض خود‘‘ Inconsistency کا الزام لگایا گیا تھا تو آپ نے مذکورہ توضیح……
۵۷؎ سوال یہ تھا الہام اور مصلحین کے آنے کے امکانات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
۵۸؎ حضرت علامہؒ کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے اور مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کے مابین اسلام اور وطنیت کے موضوع پر ایک غلط فہمی کے باعث زبردست بحث چھڑ گئی تھی۔ جس کا اختتام حضرت علامہؒ کے اس خط پر ہوا۔ جو انہوں نے ایڈیٹر احسان لاہور کو لکھا۔ یہ خط اس بحث سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس بحث کے دوران حضرت علامہؒ کا ایک طویل جوابی مضمون روزنامہ احسان لاہور میں شائع ہوا۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ کے نام اقتباس اسی مضمون سے ماخوذ ہے۔
۵۹؎ جب ایک پارسی مسٹر دین شاکے ایک خط کے متعلق جو ’’اسٹیٹس مین‘‘ دہلی میں شائع ہوا۔ حضرت علامہؒ سے پوچھا گیا تو آپ نے مذکورہ جواب دیا۔