۳۹؎ یہ نقل کفر مجھ سے نہ ہوگا۔ آپ ’’السیف المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘ دیکھ لیجئے۔
(ندوی)
۴۰؎ اس وقت وہ (علامہ مرحوم) ردقادیانی پر اپنا مضمون تیار کر رہے تھے۔ (ندوی)
۴۱؎ جی ہاں! اس کتاب میں یہ روایت ہے، جو مصنف ابن ابی شیبہ سے لی گئی ہے۔ لیکن اس کی سند مذکور نہیں جو روایت کی صحت وصنف کا پتہ لگایا جائے اور اگر صحیح ہو بھی تو یہ حضرت عائشہؓ کی محض رائے ہے۔ کیونکہ رسول اﷲ(ﷺ) نے باربار خود فرمایا ہے۔ ’’لانبی بعدی‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے اپنے خیال میں اس لئے ایسا کہنے سے منع کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا انکار اس سے لوگ نہ سمجھنے لگیں۔ بہرحال یہ ان کا خیال ہے۔ جس کا صحیح ہونا ضروری نہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب خود حضور (ﷺ) کے قول کے خلاف ہو۔ ندوی
۴۲؎ جی ہاں! وہی روایت بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ اس کتاب میں بھی ہے اور اس کی نسبت پہلے لکھ چکا ہوں۔ (ندوی)
۴۳؎ حجج الکرامہ فی آثار القیامہ، نواب صدیق حسن خاں کی کتاب ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد ثانی بصفت نبوت ہوگی یا بلا صفت نبوت۔ اس باب میں علماء کا اختلاف ہے۔ نواب صاحب کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ بصفت نبوت ہوگی۔ اس لئے وہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی آمد ثانی میں ان کی صفت نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ مرتکب کلمہ کفر ہیں۔ بہرحال یہ رائے ہے۔ (ندوی)
۴۴؎ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے۔ اس روایت کو بعض محققین نے موضوعات میں شمار کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فرضاً ہے واقعہ نہیں۔ کیونکہ لو فرض عدم وقوع کے لئے آتا ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اﷲ(ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اس لئے ابراہیم بن محمد کو بچپن ہی میں اٹھالیاگیا۔ چنانچہ دوسری روایتوں میں یہی مذکور ہے۔ چنانچہ خود ابن ماجہ میں اور بخاری میں ہے۔ ’’ولو قضیٰ ان یکون بعد محمد نبی لعاش ابنہ ولٰکن لا نبی بعدہ‘‘ (ابن ماجہ، جنائز، بخاری، انبیائ) یعنی یہ کہ اگر فیصلہ الٰہی یہ ہوتا ہے کہ محمد(ﷺ) کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کے صاحبزادہ زندہ رہتے۔ لیکن یہ فیصلہ الٰہی ہوچکا تھا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ملا علی قاری نے اس کو موضوعات میں لیا ہے۔ اس کو معتبر نہیں کہا ہے۔ ضعیف کہا ہے۔ اس میں ابوشیبہ ابراہیم راوی ضعیف ہے۔ بلکہ وہ متروک الحدیث، منکر الحدیث باطل گو اور دروغگو تک کہاگیا ہے۔