نے سید نذیر نیازی کے نام اپنے ایک خط میں اس کی تصحیح بھی فرمادی تھی اور سید صاحب موصوف کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان کے مضمون کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے اس غلطی کو درست کر دیں۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو (مکتوبات اقبالؒ ص۳۲۲)
۲۷؎ یہاں حضرت علامہؒ کو سہو ہوگیا ہے۔ اجازت تنسیخ کی نہیں۔ التواء کی ہے اس کا اندازہ سید سلیمان ندویؒ کے نام ان کے ایک خط سے بھی ہوتا ہے۔ جس میں حضرت علامہؒ سید موصوف کو ان کے ایک خط کی عبارت یاد دلاتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ایک خط میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ اسلامی ریاست کے امیر کو اختیار ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ بعض شرعی اجازتوں میں فساد کا امکان ہے تو ان اجازتوں کو منسوخ کر دے۔ عارضی طور پر یا مستقل طور پر، بلکہ بعض فرائض کو بھی منسوخ کر سکتا ہے۔ اس وقت آپ کا خط میرے سامنے نہیں ہے۔ حافظے سے لکھ رہا ہوں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اسی خط کے حاشیہ میں سید سلیمان ندویؒ کے یہ الفاظ درج ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے حافظہ نے غلطی کی ہے۔ ملتوی کی جگہ منسوخ لکھ گئے ہیں۔ ملاحظہ ہو مکاتیب اقبال ج۱ ص۱۸۲، مرتبہ شیخ عطاء اﷲ ایم۔اے
۲۸؎ یہ اشارہ ہے اس عقیدے کی طرف کہ امام مہدی امام آخرالزمان ہیں۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت ہوئی کہ وہ سامرا کے ایک غار میں روپوش ہوگئے۔ وہ زندہ ہیں۔ گو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ (مکتوبات اقبالؒ ص۳۱۷، مرتبہ سید نذیر نیازی)
۲۹؎ یہ بیان ۲۰؍جون ۱۹۳۳ء کے اخبارات میں شائع ہوا۔ تب حضرت علامہؒ کشمیر کمیٹی کے عارضی صدر تھے۔
۳۰؎ یہ تاریخی خط جیسا کہ اس کی تاریخ سے ظاہر ہے، ۲۱؍جون ۱۹۳۶ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نام لکھا گیا۔ اس خط میں حضرت علامہؒ نے اسلام اور احمدیت‘‘ کے عنوان سے پنڈت جی کے جواب میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون کے مقاصد تحریر کو واضح کیا ہے۔ اصل خط حضرت علامہؒ نے انگریزی زبان میں لکھا تھا۔
۳۱؎ حضرت علامہؒ کا اصل خط چونکہ انگریزی میں ہے۔ اس لئے ہم اس مقام پر ان کی انگریزی عبارت بھی نقل کئے دیتے ہیں۔ تاکہ قارئین حضرت علامہؒ کے مافی الضمیر کا صحیح صحیح اندازہ کر سکیں۔