بیان ’’قادیانی اور جمہور مسلمان‘‘ شائع کیا اور ساتھ ہی اس پر ایک تنقیدی اداریہ بھی لکھا۔ مذکورہ مضمون دراصل اسی اداریہ کا جواب ہے۔ جو ۱۰؍جون ۱۹۳۵ء کو اخبار مذکور میں مطبع ہوا۔
۲۳؎ قادیانی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہم تو حضور(ﷺ) کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں۔ ہم منکر اور دائرہ اسلام سے خارج کیسے ہوئے؟ مگر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی نے آنحضرت(ﷺ) کو خاتم الانبیاء مان کر آپ(ﷺ) کے بعد کسی اور نئے نبی کی نبوت کو تسلیم کر لیا تو اس کا خاتم الانبیاء کا اقرار باطل ہوگیا۔ گویا دائرہ اسلام سے نکلنے کے لئے حضورﷺ کا انکار ضروری نہیں۔ کسی نئے نبی کا اقرار بھی آدمی کو اسلام کے دائرے سے باہر نکال دیتا ہے۔
۲۴؎ حضرت علامہؒ کے بیان ’’قادیانی اور جمہور مسلمان‘‘ کا شائع ہونا تھا کہ ایوان قادیانیت میں ایک زلزلہ برپا ہوگیا۔ گویا کسی نے بم پھینک دیا ہو۔ وہ سب لوگ جو اپنے مفاد کی خاطر قادیانیوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ لنگر لنگوٹ کس کر حضرت علامہؒ کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کے باوجود نہایت ناگوار لب ولہجہ میں ماڈرن ریویو کلکتہ میں تین مضمون گھسیٹ ڈالے۔ ان کا مفاد کیا تھا؟ اور تب قادیانی جماعت نے لاہور ریلوے اسٹیشن پر ان کا پرجوش استقبال کیوں کیا؟ یہ بات اپنی جگہ ہے۔ مگر حضرت علامہؒ کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ پنڈت جی کے جواب میں خاموشی اختیار کر لیتے۔ انہوں نے اپنی شدید علالت کے باوجود مندرجہ بالا طویل بیان جاری کیا جو(تخمیناً) ۱۹؍جنوری ۱۹۳۶ء کو طبع ہوا۔ حالانکہ انہیں آرام کی ضرورت تھی اور اطباء نے دماغی محنت سے احتراز کی ہدایت کر رکھی تھی۔ (مکتوبات اقبال ص۳۱۳،۳۱۴، مرتبہ سید نذیر نیازی) علامہ مرحوم کو اس بیان اور اس کی اشاعت سے اس قدر دلچسپی تھی کہ احباب کو خط لکھ لکھ کر دریافت فرماتے رہے کہ ان تک پہنچایا نہیں؟ (مکتوبات اقبال ص۳۱۷) یورپ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے اپنے اس مضمون کا ایک الگ ایڈیشن شائع کیا۔ (مکتوبات اقبال ص۳۱۷)
۲۵؎ قرون وسطیٰ میں Inquisitionکے نام سے ایک محکمہ قائم ہوا تھا۔ جو لوگوں کے عقائد مذہبی کی تحقیق وتفتیش کرتا تھا۔ برونو وغیرہ ایسے علماء سائنس کو اس محکمہ نے نذر آتش کیا۔
(حرف اقبال)
۲۶؎ جنگ نوارینو ۱۷۹۹ء میں نہیں، ۱۸۲۷ء میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ حضرت علامہؒ