۱۶؎ حضرت علامہ نے یہ بیان مئی ۱۹۳۵ء میں جاری کیا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے استعفاء کے بعد یہ بیان حضرت علامہ کی طرف سے قادیانیت کے خلاف کھلا ہوا اعلان جنگ تھا۔ یہی وہ بیان ہے جس نے ایوان قادیانیت کے دروبام کو ہلا کر رکھ دیا اور قادیانی جھتے پر پورے پنجاب میں بے بہاؤ کی پڑنے لگیں۔ اس بیان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ اس دور کے تقریباً تمام قابل ذکر انگریزی، اردو اخبارات نے اسے شائع کیا اور اکثر وبیشتر نے اس پر آرٹیکل لکھے (مکتوبات اقبال ص۳۱۳، مرتبہ سید نذیر نیازی) خود حضرت علامہؒ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں۔ (یہ بیان) قریباً تمام انگریزی اخباروں میں شائع ہوا۔ ایسٹرن ٹائمز لاہور ٹربیون لاہور سٹیٹس مین دہلی سٹار آف انڈیا کلکتہ۔ علاوہ اس کے اردو اخباروں میں اس کا ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔ (مکتوب اقبال ص۲۷۲، مرتبہ سید نذیر نیازی شائع کردہ اقبال اکادمی کراچی)
۱۷؎ مرزاغلام احمد قادیانی (۱۹۰۸ئ…۴۰،۱۸۳۹ئ) سن پیدائش مرزاغلام احمد قادیانی کی ۱۶/۳۰×۲۰ سائز کی خود نوشت سوانح حیات کے ص۱۲ سے اخذ کیاگیا ہے۔
۱۸؎ ایسا صرف اس لئے ہے کہ شکر چڑھا زہر Sugar coated Pills مسلمان آسانی کے ساتھ نگل سکیں۔ یہ بالکل وہی تکنیک ہے۔ جو بقول حضرت علامہؒ موبدانہ اثر کی بدولت ایران میں پیدا ہونے والی ملحدانہ تحریکوں نے اختیار کی۔ انہوں نے بھی یہودیوں کے عقیدۂ تناسخ کو مشرف باسلام کرنے کے لئے اس کو بروز، حلول اور ظل وغیرہ کا نام دیا اور ان اصطلاحات کا وضع کرنا اس لئے لازم تھا کہ وہ مسلم قلوب کو ناگوار نہ گزریں۔
۱۹؎ ہندوؤں کو بھی اپنی وحدت کی بقاء کے تحفظ کا مسئلہ درپیش تھا۔
۲۰؎ قرائن سے معلوم ہوتا ہے اس مقام پر حضرت علامہ ان پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو اس وقت کی انگریزی حکومت نے قادیانیوں کی مخالفت کرنے پر مولانا ظفر علی خان، ان کے اخبار، زمیندار اور جماعت احرار پر عائد کر دی تھیں۔
۲۱؎ جب حضرت علامہؒ کا بیان قادیانی اور جمہور مسلمان، اخبارات میں شائع ہوا تو بعض لوگ اس سے یہ سمجھے کہ شاید حضرت علامہؒ نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ قادیانی جماعت کو بہ جبر ختم کر دے۔ اس پر علامہ مرحوم نے مذکورہ وضاحت فرمائی۔
۲۲؎ اخبار اسٹیٹس (دہلی) نے اپنی ۱۴؍مئی ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں حضرت علامہ کا