دیا تھا۔ مدیر لائٹ اس کا صحیح مفہوم تو سمجھ نہ سکے۔ انہوں نے فرمایا یہ دیکھئے۔ اقبالؒ عقل کو نبوت پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ مغرب زدگی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ مضمون شائع ہوا تو راجہ حسن اختر صاحب نے انگریزی زبان ہی میں مدیر لائٹ کے نام ایک خط لکھا۔ جس میں ان کے غلط خیال کی تردید بڑے معقول طریقے سے کی گئی تھی۔ اتفاق سے لاہور میں راجہ صاحب سے لائٹ کے اس مضمون کا ذکر آگیا۔ میں نے عرض کیا یہ پرچہ چونکہ ایک انجمن کا ہے۔ جس کی ایک مخصوص دعوت ہے۔ لہٰذا مجھے اس کا ترجمہ اردو میں شائع کر دینا چاہئے۔ حضرت علامہؒ نے بھی اس خیال سے اتفاق فرمایا۔ پھر جب ضمناً بعض دوسرے مسائل کی وضاحت ضروری نظر آئی اور میں نے حضرت علامہؒ سے اس بارے میں مشورہ کیا تو انہوں نے ازراہ عنایت (یہ) دو تحریریں مرحمت فرمائیں۔ (مکتوبات اقبالؒ ص۳۰۰) یہ طویل اقتباس صرف اس لئے درج کیاگیا ہے کہ تاکہ آپ ان تحریروں کے پس منظر سے پوری طرح آگاہ ہو سکیں۔‘‘
۱۳؎ یہ عبارت وہی ہے جسے بشیر احمد صاحب ڈار نے اپنی کتاب انوار اقبال میں حذف کر دیا ہے۔ جب کہ علامہ مرحوم کی تحریر کے عکسی متن میں یہ موجود ہے اور صاف پڑھی جاتی ہے۔
۱۴؎ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری تیسری صدی ہجری کے مایہ ناز مسلمان مورخ، محدث اور مفسر۔
۱۵؎ علامہ طبری کے الفاظ یہ ہیں: ’’کان یؤذن للنبیﷺ ویشہد فی الاذان ان محمدا رسول اﷲ وکان الذی یؤذن لہ عبداﷲ ابن النواحۃ وکان الذی یقیم لہ حجیر ابن عمیر ویشہد لہ وکان مسیلمۃ اذا دنا حجیر من الشہادۃ قال صرح حجیر فیزید فی صوت ویبالغ التصدیق نفسہ‘‘
(تاریخ طبری ج۲ ص۲۷۶)
کہ نبی کریمﷺ کے لئے اذان دیتا تھا کہ محمد… اﷲ کے رسول ہیں۔ (مسیلمہ کے لئے) اذان عبداﷲ بن النواحہ دیتا اور اقامت حجیر بن عمیر کہتا اور جب حجیر شہادت کے قریب پہنچتا تو مسیلمہ کہتا اے حجیر خوب زور سے کہو (یعنی شہادت بلند آواز سے کہو تاکہ لوگوں کو اچھی طرح سنائی دے) پس حجیر آواز کو بلند کرتا۔ اس طرح مسیلمہ اپنی تصدیق میں مبالغہ کرتا۔