ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شائع کرتا رہا ہوں اور میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی… تو یہ اندیشہ (میرے) دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب ص۳۶۱،۳۶۲، خزائن ج۱۵ ص۴۸۹،۴۹۰)
۱۰؎ یہ مضمون تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ سے احذ کیاگیا ہے۔ جو حضرت علامہؒ کے ان مایہ ناز انگریز خطبات کا اردو ترجمہ ہے۔ جو انہوں نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر ۱۹۲۸ئ،۱۹۲۹ء میں مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں ارشاد فرمائے۔ یہ خطبات فلسفیانہ رنگ میں اپنے موضوع پر ایک اچھوتی تخلیق ہیں۔
۱۱؎ حضرت علامہؒ نے انگریزی میں آفاق وانفس کا مرادف Self and World لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p:120, By Sir Muhammad Iqbal 2nd Edition 1934
۱۲؎ نمبر۳،۴ کے ذیل میں دی گئی تحریریں ۱۹۳۵ء میں حضرت علامہؒ نے سید نذیر نیازی، سب ایڈیٹر طلوع اسلام، دہلی کے نام لکھیں۔ ان کا شان نزول خود انہی کی زبانی سنئے: ’’(ان) کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ۱۹۳۵ء میں انجمن احمدیہ اشاعت اسلام، لاہور کے انگریزی ہفت روزہ لائٹ نے بلاوجہ حضرت علامہؒ کے انگریزی خطبات بالخصوص پانچویں خطبے پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی کہ یہ جو حضرت علامہؒ کہتے ہیں کہ باب نبوت مسدود ہے۔ یہ دراصل مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔ حضرت علامہؒ نے کہیں، عقل استقرائی کا ذکر کر