حاشیہ جات
۱؎ یہ رائے حضرت علامہؒ نے ۱۹۲۸ء میں اورینٹل کالج لاہور کے خطبہ صدارت میں ظاہر فرمائی۔ ملاحظہ ہو انوار اقبال ص۲۵۵، مرتبہ بشیر احمد ڈار
۲؎ مکاتیب اقبال ج۱ ص۱۶۶، شیخ عطاء اﷲ ایم۔اے
۳؎ مکاتیب اقبال ج۱ ص۸۰، شیخ عطاء اﷲ ایم۔اے
۴؎ مکاتیب اقبال ج۱ ص۱۰۱، شیخ عطاء اﷲ ایم۔اے
۵؎ ۱۹۳۰ء یا اس سے کچھ پہلے کی بات ہے۔ یہ بات میرے استفسار پر جناب خالد نظیر صاحب صوفی (مرتب، اقبال درون خانہ) نے اپنی والدہ مکرمہ مدظلہا سے پوچھ کر مجھے بتائی۔ صوفی صاحب کی والدہ زید مجدہا شیخ عطاء محمد صاحب (برادر اکبر حضرت علامہؒ) کی سب سے چھوٹی دختر ہیں اور جس لڑکی کی شادی کا ذکر ہے وہ موصوفہ سے کوئی دو تین برس بڑی تھیں۔ مرتب
۶؎ حتی کہ ۱۹۰۰ء میں بانی قادیانیت نے حکومت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ مردم شماری کے وقت ان کی جماعت اور ان کے پیروؤں کا نام عام مسلمانوں سے الگ رجسٹر کیا جائے۔ ملاحظہ ہو اشتہار واجب الاظہار، منجانب مرزاغلام احمد قادیانی مطبوعہ ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۶)
۷؎ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ آسمانی نوشتوں میں لکھا ہے اور وہ پورا ہوکر رہے گا کہ یہ مقام (ربوہ) دنیوی لحاظ سے بھی ایک اہم مقام بن جاوے گا۔ اس عبارت کا ایک ایک لفظ الفضل نامی قادیانی روزنامے سے منقول ہے۔ ملاحظہ ہو اشاعت بابت ۷؍فروری ۱۹۵۱ء تب یہ اخبار لاہور سے شائع ہوتا تھا۔
۸؎ قادیانی اور لاہوری۔ اوّل الذکر مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتا اور اس کے منکرین کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتا ہے۔ ثانی الذکر مرزاغلام احمد کو مجدد تسلیم کرتا ہے۔
۹؎ نام نہاد مناظرے اور مباحثے اس لئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے جو کچھ بھی لکھا یا کہا وہ سب انگریزی اقتدار کے استحکام کی غرض سے تھا۔ چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں: ’’ہاں میں اس کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحثات بھی کیا کرتا ہوں اور