حیثیت رکھتا ہے جو قادیانی افکار میں انکار خاتمیت کا نظریہ، وطنیت کے حامی بالفاظ دیگر یہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے لئے ضروری ہے کہ وقت کی مجبوریوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی حیثیت کے علاوہ جس کو قانون الٰہی ابدالاباد تک متعین ومتشکل کر چکا ہے۔ کوئی اور حیثیت بھی اختیار کرے۔ جس طرح قادیانی نظریہ ایک جدید نبوت کی اختراع سے قادیانی افکار کو ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس کی انتہاء نبوت محمدیہ کے کامل واکمل ہونے سے انکار کی راہ کھولنا ہے۔ بظاہر نظریہ وطنیت سیاسی نظریہ ہے اور قادیانی انکار خاتمیت الٰہیات کا ایک مسئلہ ہے۔ لیکن ان دونوں میں ایک گہرا معنوی تعلق ہے۔ جس کی توضیح اس وقت ہوسکے گی۔ جب کوئی دقیق النظر مسلمان مورخ ہندی مسلمانوں اور بالخصوص ان کے بعض بظاہر مستعد فرقوں کے دینی افکار کی تاریخ مرتب کرے گا۔
دین شا کے جواب میں۵۹؎
مجھے اس کے متعلق کچھ عرض نہیں کرنا ہے۔ سوائے اس کے کہ مجھے ان کے مرکزی خیال سے پورا اتفاق ہے۔ یعنی اسلام کی ظاہری اور باطنی تاریخ میں ایرانی عنصر کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے۔ یہ ایرانی اثر اس قدر غالب رہا ہے کہ سپنگلر Spengler نے اسلام پر موبدانہ رنگ دیکھ کر اسلام کو ہی ایک موبد مذہب سمجھ لیا تھا۔ میں نے اپنی کتاب ’’تشکیل نو‘‘ میں کوشش کی ہے کہ اسلام پر سے اس موبدانہ خول کو دور کردوں اور مجھے امید ہے کہ اسی سلسلے میں میں اپنی کتاب قرآنی تعلیم کا مقدمہ میں مزید کام کر سکوں گا۔ موبدانہ تخیل اور مذہبی تجربہ مسلمانوں کی دینیات، فلسفہ، اور تصوف کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہیں۔ بہت سا مواد ایسا موجود ہے جس سے ظاہر ہوسکتا ہے کہ تصوف کے چند اسکولوں نے جو اسلامی سمجھے جاتے ہیں، اس موبدانہ حالات واردات کو ہی زندہ کیا ہے۔ میں موبد تمدن کو انسانی تمدن کے بے شمار مظاہرات میں سے ایک مظاہرہ سمجھتا ہوں۔ میں نے اس لفظ کو برے معنی میں استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کے پاس بھی حکومت کا تصور تھا۔ فلسفیانہ مباحث تھے۔ حقائق بھی تھے اور غلطیاں بھی۔ لیکن جب تمدن پر زوال آتا ہے تو اس کے فلسفیانہ مباحث، تصورات اور دینی واردات کی اشکال میں انجماد اور سکون آجاتا ہے۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو موبد تمدن پر یہی حالت طاری تھی اور تمدنی تاریخ کو جس طرح میں سمجھتا ہوں، اسلام نے اس تمدن کے خلاف احتجاج کیا۔ خود قرآن کے اندر شہادت موجود ہے کہ اسلام نہ محض ذہنی بلکہ مذہبی واردات کے لئے بھی نئی راہ پیدا کرنی چاہتا تھا۔ لیکن ہماری مغانہ وراثت نے اسلام کی زندگی کو کچل ڈالا اور اس کی اصل روح اور مقاصد کو ابھرنے کا موقع نہ دیا۔
(حرف اقبالؒ ص۱۳۴،۱۳۵)