کو اپنے کانوں سے آنحضرت(ﷺ) کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا۔ درخت جڑ سے نہیں پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر میرے موجودہ رویہ میں کوئی تناقض ہے تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے۔ بقول ایمرسن صرف پتھر اپنے آپ کو نہیں جھٹلا سکتے۔
(حرف اقبالؒ ص۱۳۱،۱۳۲)
۲…۵۷؎ اس سوال کا جواب ’’تشکیل نو‘‘ کے حوالہ سے بہتر دیا جاسکے گا۔ جہاں ص۱۲۰،۱۲۱ پر میں نے لکھا ہے: ’’ختم نبوت سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ زندگی کی انتہاء بس یہ ہو کہ عقل، جذبات کی قائم مقام ہو جائے۔ یہ چیز نہ ممکن ہے نہ مستحسن۔ اس عقیدہ کی عقلی افادیت اتنی ہے کہ اس سے باطنی واردات کو آزاد تنقیدی رنگ ملتا ہے۔ کیونکہ اس یقین سے یہ لازم آتا ہے کہ انسانی تاریخ میں فوق الفطرت سرچشمہ کا منصب ختم ہوچکا۔ یہ یقین ایک نفسیاتی قوت ہے۔ جو ایسے منصب کی پیدائش کو روکتا ہے اور اس خیال سے انسان کے اندرونی تجربات میں علم کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ’’لا الا‘‘ فطرت کی تمام قوتوں سے الوہیت کا لباس اتارتا ہے اور انسان کے بیرونی تجربات میں تنقیدی مشاہدہ کی روح پیدا کرتا ہے۔ باطنی واردات خواہ وہ کتنی غیر فطری اور غیرمعمولی ہو، مسلمان کے لئے بالکل فطری تجربہ ہے۔ جو دوسرے تجربات کی طرح تنقید کی زد میں آتا ہے اور یہ چیز رسول کریم(ﷺ) کے رویہ سے اور بھی روشن ہوجاتی ہے۔ جو انہوں نے ابن صیاد (حرف اقبالؒ میں ابن سید ترجمہ کیاگیا جو صحیح نہیں) کی نفسیاتی واردات کے لئے اختیار فرمایا۔ اسلام میں تصوف کا مقصد انہی باطنی واردات کو منظم کرنے کا ہے۔ اگرچہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ابن خلدون ہی ایک ایسا شخص گزرا ہے جس نے اسے اصولی طریقے پر جانچا۔‘‘
پہلے فقرہ سے صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ نفسیاتی معانی میں اولیاء یا ان جیسی صفات کے لوگ ہمیشہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ مرزاقادیانی بھی اس زمرہ میں شامل ہیںیا نہیں؟ جب تک عالم انسانیت کی روحانی اہلیتیں برداشت کر سکتی ہیں۔ ایسے لوگ تمام قوموں اور ملکوں میں پیدا ہوں گے تا کہ وہ انسانی زندگی کی بہتر اقدار کا پتہ دے سکیں۔ اس کے خلاف قیاس کرنا تو انسانی تجربہ کو جھٹلانا ہوگا۔ فرق محض اس قدر ہے کہ اب ہر شخص کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ان باطنی واردات پر تنقیدی نظر ڈال سکے اور باتوں کے علاوہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ روحانی زندگی میں، جس کے انکار کی سزا جہنم ہے ذاتی سند ختم ہوچکی ہے۔
مولانا حسین احمد مدنیؒ کے نام۵۸؎
مولانا حسین احمد یا ان کے دیگر ہم خیالوں کے افکار میں نظریۂ وطنیت ایک معنی میں وہی