ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے مختلف قرار دے اور ایک معنی میں لفظ بھی الہام ہوتا ہے۔‘‘
(حرف اقبالؒ ص۱۲۹،۱۳۰)
۲…۵۵؎ مدیر لائٹ نے ایک ایسی حدیث کا حوالہ دیا ہے جو تاریخی عمل کی نہایت حسابی تصویر پیش کرتی ہے۔ میں اگرچہ انسان کے روحانی امکانات اور روحانی آدمیوں کی پیدائش کا قائل ہوں تاہم مجھے یقین نہیں کہ اس تاریخی عمل کا حساب ویسے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ جیسے لائٹ کا خیال ہے۔ ہم بآسانی اعتراف کر سکتے ہیں کہ تاریخی عمل کا شعور ہماری ذہنی سطح سے بہت بلند ہے۔ میں منفی رنگ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس طرح مقرر اور حسابی نہیں ہے۔ جیسے لائٹ نے سمجھا ہے۔ میں ابن خلدون کی رائے سے بہت حد تک متفق ہوں۔ جہاں وہ تاریخی عمل کو ایک آزاد تخلیقی تحریک تصور کرتا ہے۔ نہ کہ ایسا عمل جو پہلے سے متعین کیا جاچکا ہو۔ موجودہ دور میں برگساں نے اسی نظریہ کو زیادہ صحت اور عمدہ مثالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لائٹ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ وہ غالباً جلال الدین سیوطی نے مشہور کی تھی اور اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ بخاری ومسلم میں اس حدیث کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ اس میں چند بزرگوں کے تاریخی عمل کے نظریہ کی جھلک ہو تو ہو۔ لیکن افراد کے ایسے رؤیا کوئی دلیل نہیں بن سکتے۔ تمام محدثین نے اسی اصول کی پیروی کی ہے۔ (حرف اقبالؒ ص۱۳۰،۱۳۱)
سن رائز کے جواب میں۵۶؎
مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس نہ وہ تقریر اصل انگریزی میں محفوظ ہے اور نہ اس کا اردو ترجمہ جو مولانا ظفر علی خاں نے کیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تقریر میں نے ۱۹۱۱ء یا اس سے قبل کی تھی اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اب سے ربع صدی پیشتر مجھے اس تحریک سے اچھے نتائج کی امید تھی۔ اس تقریر سے بہت پہلے مولوی چراغ مرحوم نے، جو مسلمانوں میں کافی سربرآوردہ تھے اور انگریزی میں اسلام پر بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ بانی تحریک کے ساتھ تعاون کیا اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کتاب موسومہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں انہوں نے بیش قیمت مدد بہم پہنچائی۔ لیکن کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں نمایاں نہیں ہوجاتی۔ اسے اچھی طرح ظاہر ہونے کے لئے برسوں چاہئیں۔ تحریک کے دو گروہوں کے باہمی نزاعات اس امر پر شاہد ہیں کہ خود ان لوگوں کو جو بانی تحریک کے ساتھ ذاتی رابطہ رکھتے تھے۔ معلوم نہ تھا کہ تحریک آگے چل کر کس راستہ پر پڑ جائے گی۔ ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا تھا۔ جب ایک نئی نبوت بانی اسلام کی نبوت سے اعلیٰ تر نبوت کا دعویٰ کیاگیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی۔ جب میں نے تحریک کے ایک رکن