نوازش نامہ موصول ہوا۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ جس مقدمہ کی پیروی کے لئے میں نے آپ سے درخواست کی تھی اس کی پیروی چوہدری ظفر اﷲ خاں (یہ وہی ظفر اﷲ خاں ہیں جنہیں بعد از تقسیم پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ مقرر کیاگیا) کریں گے۔ عبدالحمید صاحب نے مجھے یہ اطلاع دی ہے اور میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو ہر قسم کی زحمت سے بچانے کے لئے مجھے فی الفور آپ کو مطلع کرنا چاہئے۔
چوہدری ظفر اﷲ خاں کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جارہے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں، شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ میں اس تمام زحمت کے لئے جو آپ برداشت کر رہے ہیں اور اس تمام ایثار کے لئے جو آپ گوارا فرمارہے ہیں بے حد ممنون ہوں۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ (مکاتیب اقبال ج۱ ص۴۳۵)
مخلص: محمد اقبال
باب چہارم … توضیحات
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اﷲ
(ضرب کلیم)
لائٹ کے جواب میں۵۴؎
لائٹ نے اپنے الزام کی بنیاد میرے اس شعر پر رکھی ہے ؎
ہم کلامی ہے غیریت کی دلیل
خامشی پر مٹا ہوا ہوں میں
یہ سلیس اردو ہے۔ جس کا مطلب محض یہ ہے کہ انسان کی روحانی زندگی میں ہم کلامی سے آگے بھی ایک منزل ہے۔ لیکن شعر کو وحی کے دینی معانی سے کچھ تعلق نہیں۔ اس سلسلہ میں لائٹ کی توجہ اپنی کتاب تشکیل نو کی طرف مبذول کراؤں گا۔ جہاں ص۲۱ پر میں نے لکھا ہے کہ: ’’احساس اور تخیل کے فطری رشتہ سے وحی کے متعلق اس اختلاف کی روشنی پڑتی ہے۔ جس نے مسلم مفکرین کو کافی پریشان کیا تھا۔ غیر واضح احساس اپنے منتہاء کو تخیل کے اندر پاتا ہے اور خود تخیل لباس مجاز میں آنے کی سعی کرتا ہے۔ یہ محض استعارہ نہیں ہے کہ تخیل اور لفظ دونوں بیک وقت بطن احساس سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگرچہ ادراک انہیں وجود میں لاکر خود اپنے لئے یہ دشواری پیدا کرتا