۵…
بھوپال، مورخہ ۲۳؍اگست ۱۹۳۵ء
مخدوم مکرم جناب مولانا! السلام علیکم!
ایک عریضہ لکھ چکا ہوں۔ امید کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گذرا ہوگا۔ ایک بات دریافت طلب رہ گئی تھی۔ جواب عرض کرتا ہوں۔
کیا علمائے اسلام میں کوئی ایسے بزرگ بھی گزرے ہیں جو حیات ونزول مسیح ابن مریم (علیہما السلام) کے منکر ہوں؟ یا اگر حیات کے قائل ہوں تو نزول کے منکر ہوں؟ معتزلہ کا عام طور پر اس مسئلہ میں کیا مذہب ہے۴۶؎؟ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ میں ۲۸؍اگست کی شام کو رخصت ہوجاؤں گا۔ علاج کا کورس اس روز صبح ختم ہو جائے گا۔ اس خط کا جواب لاہور کے پتہ پر ارسال فرمائیے۔ (مکاتیب اقبالؒ ج۱ ص۱۹۶، مرتبہ شیخ عطاء اﷲ ایم۔اے)
والسلام!
مخلص: محمد اقبال
۶…
لاہور، مورخہ ۷؍اگست ۱۹۳۶ء
مخدومی! السلام علیکم!
والانامہ ابھی ملا ہے۔ آپ کی صحت کی خبر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ آپ کو دیر تک زندہ وسلامت رکھے۔ میری صحت کی حالت بہ نسبت سابق بہتر ہے۔ گو آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ انشاء اﷲ موسم سرما میں وہ انگریزی کتاب لکھنا شروع کروں گا۔ جس کا وعدہ میں نے اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال سے کر رکھا ہے۔ اس میں آپ کے مشورہ کی ضرورت ہے۔ بدور البازغہ بھی اسی مطلب کے لئے منگوائی ہے۔ اس کتاب میں زیادہ تر قوانین اسلام پر بحث ہوگی کہ اس وقت اسی کی ضرورت ہے۴۷؎۔ اس کے متعلق جو جو کتب آپ کے ذہن میں ہیں۔ مہربانی کر کے ان کے ناموں سے مجھے آگاہ فرمائیے اور یہ بھی فرمائیے کہ کہاں کہاں سے دستیاب ہوں گی؟
الحمدﷲ! کہ اب قادیانی فتنہ پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہورہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی دو تین بیان چھپوائے ہیں۴۸؎۔ مگر حال کے روشن خیال علماء کو ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ اگر آپ کی صحت اجازت دے تو آپ بھی اس پر ایک جامع ونافع بیان شائع فرمائیے۴۹؎۔ میں بھی تیسرا بیان انشاء اﷲ جلد لکھوں گا۔ اس کا موضوع ہوگا۔ ’’بروز‘‘ لفظ بروز کے متعلق اگر کوئی نکتہ آپ کے