امید ہے کہ اس عریضہ کا جواب جلد ملے گا۔ زیادہ کیا عرض کروں، میری صحت پہلے سے بہتر ہے۔ امید ہے کہ اس دفعہ کے علاج سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ (مکاتیب اقبال ج۱ ص۱۸۸)
والسلام!
مخلص: محمد اقبال (لاہور)
حال وارد بھوپال
۴…
بھوپال، شیش محل، مورخہ یکم؍اگست ۱۹۳۵ء
مخدوم مکرم جناب مولانا! السلام علیکم!
؎ آپ کا والا نامہ مجھے ابھی ملا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ چند امور اور بھی دریافت طلب ہیں۔ ان کے جواب سے بھی ممنون فرمائیے۴۰؎۔
۱… تکملہ مجمع البحار ص۸۵ میں حضرت عائشہؓ کا ایک قول نقل کیاگیا ہے۔ یعنی یہ کہ حضور رسالت مآب(ﷺ) کو خاتم النبیین کہو۔ لیکن یہ نہ کہو کہ ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہوگا۴۱؎۔
مہربانی کر کے کتاب دیکھ کر یہ فرمائیے کہ آیا اس قول کے اسناد درج ہیں اور اگر ہیں تو آپ کے نزدیک ان اسناد کی حقیقت کیا ہے؟
ایسا ہی قول درمنثور، ج۵ ص۲۰۴ میں ہے۔ اس کی تصدیق کی بھی ضرورت ہے۴۲؎۔ میں نے یہاں بھوپال میں یہ کتب تلاش کیں۔ افسوس اب تک نہیں ملیں۔
۲… (حجج الکرامہ ص۴۳۱) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ آنے کے متعلق ارشاد ہے۔ ’’من قال بسلب نبوتہ کفر حقا‘‘ اس قول کی آپ کے نزدیک کیا حقیقت ہے۴۳؎؟
۳… ’’لوعاش ابراہیم لکان نبینا‘‘ اس حدیث کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ نووی اسے معتبر نہیں جانتا۔ ملا علی قاری کے نزدیک معتبر ہے۔ کیااس کے اسناد درست ہیں۴۴؎؟
۴… بخاری کی حدیث ’’وامامکم منکم‘‘ میں واؤ حالیہ ہے کیا۴۵؎؟ اگر حالیہ ہو تو اس حدیث کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے مسلمانوں کو کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جس وقت وہ آئیں گے مسلمانوں کا امام خود مسلمانوں میں سے ہوگا۔
۵… ختم نبوت کے متعلق اور بھی اگر کوئی بات آپ کے ذہن میں ہو تو اس سے آگاہ فرمائیے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ مزاج بخیر ہوگا۔ (مکاتیب اقبالؒ ج۱ ص۱۹۱تا۱۹۴)
والسلام! مخلص: محمد اقبال