کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وحدت دنیائے اسلام میں یکساں روحانی فضا پیدا کرنے کی ضامن ہے۔ یہی وحدت اسلامی ریاستوں میں سیاسی اتحاد قائم کرنے میں سہولت پیدا کرتی ہے۔ خواہ یہ اتحاد عالمگیر ریاست (مثالی) کی صورت اختیار کرے یا اسلامی ریاستوں کی جمعیت کی ایک صورت یا متعدد آزاد ریاستوں کی صورت جن کے معاہدات اور میثاقات خالص معاشی وسیاسی مصلحتوں پر مبنی ہوں گے۔ اس طرح اس سیدھے سادھے مذہب کی تعقلی ہیئت ترکیبی رفتار زمانہ سے ایک تعلق رکھتی ہے۔ اس تعلق کی گہرائی قرآن کی چند آیتوں کی روشنی میں سمجھ میں آسکتی ہے۔ جن کی تشریح پیش نظر مقصد سے ہٹے بغیر یہاں ممکن نہیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے وحدت اسلامی صرف اس وقت متزلزل ہو جاتی ہے۔ جب کہ اسلامی ریاستیں ایک دوسرے سے جنگ کرتی ہیں اور مذہبی نقطۂ نظر سے اس وقت متزلزل ہو جاتی ہے۔ جب کہ مسلمان بنیادی عقائد یا ارکان شریعت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ اس ابدی وحدت کی خاطر اسلام اپنے دائرے میں کسی باغی جماعت کو روا نہیں رکھتا۔ اسلام کے دائرے سے باہر ایسی جماعت کے ساتھ دوسرے مذاہب کے پیروؤں کی طرح رواداری برتی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں اس وقت اسلام ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ وہ سیاسی وحدت کی ایک صورت سے کسی دوسری صورت کی طرف جو ابھی متعین نہیں ہوئی ہے۔ اقدام کر رہا ہے۔ دنیائے جدید میں حالات اس سرعت کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ مستقبل کے متعلق پیشین گوئی تقریباً ناممکن ہے۔ اگر دنیائے اسلام سیاسی وحدت حاصل کرے۔ (اگر ایسا ممکن ہو) تو غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ کیا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف تاریخ ہی دے سکتی ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جغرافعی حیثیت سے یورپ اور ایشیاء کے درمیان واقع ہونے کے لحاظ سے اور زندگی کے مشرقی ومغربی نصب العین کے ایک امتزاج کی حیثیت سے اسلام کو مشرق ومغرب کے مابین ایک طرح کا نقطۂ اتصال بننا چاہئے۔ لیکن اگر یورپ کی نادانیاں اسلام کو ناقابل مفاہمت بنادیں تو کیا ہوگا؟ یورپ کے روزمرہ کے حالات جو صورت اختیار کر رہے ہیں۔ ان کا اقتضاء یہ ہے کہ یورپ اپنے طرز عمل کو کلیتہً بدل دے جو اس نے اسلام کے متعلق اختیار کیا ہے۔ ہم صرف یہ توقع کر سکتے ہیں کہ سیاسی بصیرت پر معاشی لوٹ اور شہنشاہی ہوس کا پردہ نہیں پڑے گا۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے۔ میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان ہند کسی ایسی تصوریت کا شکار نہیں بنیں گے۔ جو ان کی تہذیبی وحدت کا خاتمہ دے گی۔ اگر ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو جائے تو ہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اور حب الوطنی میں ہم آہنگی پیدا کر لیں گے۔