اسلام کے خلاف اس قدر نہیں جارہا۔ جس قدر کہ روح عصر کے خلاف۔ اگر وہ نسلوں کے وجود کو ضروری سمجھتا ہے تو اس کو عصر جدید کی روح شکست دے دے گی۔ کیونکہ عصر جدید کی روح بالکل روح اسلام کے مطابق ہے۔ بہرحال ذاتی طور پر میں خیال کرتا ہوں کہ اتاترک اتحاد تورانیت سے متاثر نہیں ہے۔ میرا یقین ہے کہ اس کا اتحاد تورانیت ایک سیاسی جواب ہے۔ اتحاد اسلاف یا اتحاد المانیویت یا اتحاد اینگلوسیکسن کا۔
اگر مندرجہ بالا عبارت کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو قومی نصب العین سے متعلق اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں دشواری نہ ہوگی۔ اگر قومیت کے معنی حب الوطنی اور ناموس وطن کے لئے جان تک قربان کرنے کے ہیں تو ایسی قومیت مسلمانوں کے ایمان کا ایک جزو ہے۔ اس قومیت کا اسلام سے اس وقت تصادم ہوتا ہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصور بن جاتی ہے اور اتحاد انسانی کا بنیادی اصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظر میں چلا جائے اور قومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصر کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔ ترکی، ایران، مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں قومیت کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی زبردست اکثریت ہے اور یہاں کی اقلیتیں جیسے یہودی، عیسائی اور زرتشتی اسلامی قانون کی رو سے یا تو اہل کتاب ہیں یا اہل کتاب سے مشابہ ہیں۔ جن سے معاشی اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا اسلامی قانون کے لحاظ سے بالکل جائز ہے۔ قومیت کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے صرف ان ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں اور جہاں قومیت کا یہ تقاضا ہو کہ وہ اپنی ہستی کو مٹادیں۔ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے۔ کیونکہ یہاں اسلام اور قومیت عملاً ایک ہی چیز ہے۔ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ (وہاں) مسلمانوں کی یہ کوشش کہ ایک تہذیبی وحدت کی حیثیت سے خود مختاری حاصل کی جائے۔ حق بجانب ہوگی۔ دونوں صورتیں اسلام کے بالکل مطابق ہیں۔
سطور بالا میں دنیائے اسلام کی صحیح صورتحال کو اجمالی طور پر پیش کر دیاگیا ہے۔ اگر اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو یہ امر واضح ہو جائے گا کہ وحدت اسلامی کے بنیادی اصولوں کو کوئی بیرونی یا اندرونی قوت متزلزل نہیں کر سکتی۔ وحدت اسلامی، جیسا کہ میں نے پہلے توضیح کی ہے۔ مشتمل ہے اسلام کے دو بنیادی عقائد پر۔ جن میں پانچ مشہور ارکان شریعت کا اضافہ کر لینا چاہئے۔ وحدت اسلامی کے یہ اساسی عناصر ہیں جو رسول کریم(ﷺ) زمانے سے اب تک قائم ہیں۔ گوحال میں بہائیوں نے ایران اور قادیانیوں نے ہندوستان میں ان عناصر میں انتشار پیدا