اور ایرانیوں نے اسلام کو ترک کر دیا ہے۔ تاریخ کا متعلم اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام کا ظہور ایسے زمانے میں ہوا جب کہ وحدت انسانی کے قدیم اصول جیسے خونی رشتہ اور ملوکیت ناکام ثابت ہورہے تھے۔ پس اسلام نے وحدت انسانی کا اصول گوشت اور پوست میں نہیں بلکہ روح انسانی میں دریافت کیا۔ نوع انسان کو اسلام کا اجتماعی پیغام یہ ہے کہ نسل کے قیود سے آزاد ہو جاؤ یا باہمی لڑائیوں سے ہلاک ہو جاؤ۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ اسلام فطرت کی نسل سازی کو ٹیڑھی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے مخصوص اداروں کے ذریعہ ایسا نقطۂ نظر پیدا کر دیتا ہے۔ جو فطرت کی نسل ساز قوتوں کی مزاحمت کرتا ہے۔ انسانی برادری قائم کرنے کے سلسلہ میں اسلام نے جو اہم ترین کارنامے ایک ہزار سال میں انجام دئیے۔ وہ مسیحیت اور بدھ مت نے دو ہزار سال میں بھی انجام نہیں دئیے۔ یہ بات ایک معجزے سے کم نہیں کہ ایک ہندی مسلمان نسل اور زبان کے اختلاف کے باوجود مراکش پہنچ کر اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔ تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نسل کا سرے سے مخالف ہے۔ تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے معاشری اصلاح کو زیادہ تر اس امر پر مبنی رکھا کہ بتدریج نسلی عصبیت کو مٹایا جائے اور ایسا راستہ اختیار کیا جائے۔ جہاں تصادم کا کم سے کم امکان ہو۔ قرآن کا ارشاد ہے۔ ہم نے تم کو قبائل میں اس لئے پیدا کیا کہ تم پہچانے جا سکو۔ لیکن تم میں سے وہی شخص خدا کی نظر میں بہترین ہے۔ جس کی زندگی پاک ہے۔ ’’یایہا الناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثی وجعلنٰکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اﷲ اتقٰکم (الحجرات:۱۳)‘‘ اگر اس امر کو مدنظر رکھاجائے کہ مسئلہ نسل کس قدر زبردست ہے اور نوع انسان سے نسلی امتیاز مٹانے کے لئے کس قدر وقت درکار ہے؟ تو مسئلہ نسل کے متعلق صرف اسلام ہی کا نقطۂ نظر (یعنی خود ایک نسل ساز عنصر بنے بغیر نسلی امتیازات پر فتح پانا) معقول اور قابل عمل نظر آئے گا۔ سر آرتھر کیتھ (Sir Arther Keith) کی چھوٹی سی کتاب مسئلہ نسل میں ایک دلچسپ عبارت ہے۔ جس کا اقتباس یہاں پیش کرنا نامناسب نہ ہوگا۔
’’اب انسان میں اس قسم کا غور پیدا ہورہا ہے کہ فطرت کا ابتدائی مقصد یعنی نسل سازی جدید معاشی دنیا کی ضروریات کے منافی ہے اور وہ اپنے دل سے پوچھتا ہے کہ مجھ کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا نسل سازی کو ختم کر کے جس پر فطرت اب تک عمل پیرا تھی دائمی امن حاصل کیا جائے یا فطرت کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنی قدیم راہ عمل اختیار کرے۔ جس کا لازمی نتیجہ جنگ ہے؟ انسان کو کوئی ایک راہ عمل اختیار کرنا پڑے گی۔ کوئی درمیانی راستہ ممکن نہیں؟‘‘
لہٰذا اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر اتاترک اتحاد تورانیت سے متاثر ہے تو وہ روح