غیبت کبریٰ۲۸؎ کا نظریہ ایک مفہوم میں ایک عرصہ پہلے شیعی ایران میں اس علیحدگی کو روبہ عمل لاچکا ہے۔ ریاست کے مذہبی وسیاسی وظائف کی تقسیم کے اسلامی تصور کو کلیسا اور سلطنت کے مغربی تصور سے مخلوط نہ کرنا چاہئے۔ اوّل الذکر تو محض وظائف کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ اسلامی ریاست میں شیخ الاسلام اور وزراء کے عہدوں کے تدریجی قیام سے واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن آخرالذکر روح اور مادہ کی مابعد الطبعی ثنویت پر مبنی ہے۔ مسیحیت کا آغاز ایک نظام رہبانیت سے ہوتا ہے۔ جسے دنیوی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسلام ابتداء ہی سے ایک نظام معاشری رہا ہے۔ جس کے قوانین بالطبع معاشری ہیں۔ اگرچہ ان کا ماخذ الہامی ہے۔ مابعد الطبعی ثنویت نے جس پر مذہب وسلطنت کی علیحدگی کا مغربی تصور مبنی ہے مغربی اقوام میں تلخ ثمرات پیدا کئے۔ کئی سال ہوئے امریکہ میں ایک کتاب لکھی گئی تھی۔ جس کا عنوان تھا ’’اگر مسیح شکاگو آئیں‘‘ (If Christ came to Chicago) اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک امریکی مصنف کہتا ہے: ’’مسٹر سٹیڈ (Mr. Stead) کی کتاب سے ہمیں جو سبق حاصل کرنا ہے یہ ہے کہ اس وقت نوع انسان جن برائیوں میں مبتلا ہے وہ ایسی برائیاں ہیں جن کا ازالہ صرف مذہبی تاثرات ہی کر سکتے ہیں۔ ان برائیوں کا ازالہ ایک بڑی حد تک ریاست کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ لیکن خود ریاست فساد انگیز سیاسی مشینوں میں دب گئی ہے۔ یہ مشین ان برائیوں کا ازالہ کرنے کے لئے نہ صرف تیار نہیں بلکہ وہ اس قابل نہیں ہے۔ پس کروڑہا انسانوں کو تباہی اور خود ریاست کو انحطاط سے بچانے کے لئے بجز اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ شہریوں میں اپنے اجتماعی فرائض کا مذہبی احساس پیدا کیا جائے۔‘‘
مسلمانوں کے سیاسی تجربے کی تاریخ میں مذہب وسلطنت کی علیحدگی محض وظائف کی علیحدگی ہے نہ کہ عقائد کی۔ اسلامی ممالک میں مذہب وسلطنت کی علیحدگی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ مسلمانوں کی قانون سازی عوام کے ضمیر سے بے تعلق ہو جائے۔ جو صدیوں سے اسلامی روحانیت کے تحت پرورش ونموپاتا رہا ہے۔ تجربہ خود بتلادے گا کہ یہ تخیل جدید ترکی میں کس طرح عملی صورت اختیار کرتا ہے۔ ہم صرف یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ ان برائیوں کا باعث نہ ہوگا جو یورپ اور امریکہ میں پیدا ہوگئی ہیں۔
متذکرہ الصدر اصلاحات پر میں نے جو اجمالی بحث کی ہے اس میں میرا روئے سخن پنڈت جواہر لال نہرو سے زیادہ مسلمانوں کی طرف تھا۔ پنڈت نہرو نے جس اصلاح کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ترکوں اور ایرانیوں نے نسلی اور قومی نصب العین اختیار کر لیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسا نصب العین اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ترکوں اور