ہے۔ سوئز قانون (مراد ہے سوئٹزرلینڈ کا ضابطۂ قانون) اور اس کے قواعد وراثت کو اختیار کرلینا ضرور ایک سنگین غلطی ہے۔ جو جوش اصلاح کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے اور ایک ایسی قوم میں جو سرعت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے ایک حد تک قابل معافی ہے۔ پیشوایان مذہب کے پنجہ استبداد سے نجات حاصل کرنے کی مسرت ایک قوم کو بعض اوقات ایسی راہ عمل کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ جس کا اس قوم کو کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ ترکی اور نیز تمام دنیائے اسلام کو اسلامی قانون وراثت کے ان معاشی پہلوؤں کو ابھی منکشف کرنا ہے جن کو وان کریمر (Vonkremer) فقہ اسلام کی بے حد اپچی شاخ سے تعبیر کرتا ہے۔ کیا تنسیخ خلافت یا مذہب وسلطنت کی علیحدگی منافی اسلام ہے؟ اسلام اپنی روح کے لحاظ سے شہنشاہیت نہیں ہے۔ اس خلافت کی تنسیخ جو بنو امیہ کے زمانے سے عملاً ایک سلطنت بن گئی تھی۔ اسلام کی روح اتاترک کے ذریعہ کارفرما رہی ہے۔ مسئلہ خلافت میں ترکوں کے اجتہاد کو سمجھنے کے لئے ہمیں ابن خلدون کی رہنمائی حاصل کرنا پڑے گی۔ جو اسلام کا ایک جلیل القدر فلسفی، مورخ اور تاریخ جدید کا ابوالآبا گزرا ہے۔ میں اپنی کتاب اسلامی تفکر کی تشکیل جدید (مراد ہے) کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔
ابن خلدون اپنے مشہور مقدمہ تاریخ میں عالمگیر اسلامی خلافت سے متعلق تین متمائز نقاط نظر پیش کرتا ہے۔
۱… عالمگیر خلافت ایک مذہبی ادارہ ہے۔ اسی لئے اس کا قیام ناگزیر ہے۔
۲… اس کا تعلق محض اقتضائے وقت سے ہے۔
۳… ایسے ادارے کی ضرورت ہی نہیں۔
آخر الذکر خیال کو خاریوں نے اختیار کیا تھا۔ جو اسلام کے ابتدائی جمہورین تھے۔ ترکی پہلے خیال کے مقابلہ میں دوسرے خیال کی طرف مائل ہے۔ یعنی معتزلہ کے اس خیال کی طرف کہ عالمگیر خلافت محض اقتضائے وقت سے تعلق رکھتی ہے۔ ترکوں کا استدلال یہ ہے کہ ہم کو اپنے سیاسی تفکر میں اپنے ماضی کے سیاسی تجربے سے مدد لینی چاہئے۔ جو بلاشک وشبہ اس واقعہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ عالمگیر خلافت کا تفکر وتخیل عملی صورت اختیار کرنے سے قاصر رہا۔ یہ تخیل اس وقت قابل عمل تھا جب کہ اسلامی ریاست برقرار تھی۔ اس ریاست کے انتشار کے بعد کئی آزاد سلطنتیں وجود میں آگئی ہیں۔ اب یہ تخیل بے اثر ہوگیا ہے اور اسلام کی تنظیم جدید میں ایک زندگی بخش عنصر کی حیثیت سے کارگر نہیں ہوسکتا۔
مذہب وسلطنت کی علیحدگی کا تصور بھی اسلام کے لئے غیرمانوس نہیں ہے۔ امام کی