اور آیات قرآنی کی تاویلات میں وہ کتنی ہی غلطیاں کرے۔ غالباً پنڈت جواہر لال نہرو کے ذہن میں وہ مفروضہ یا حقیقی اصلاحات ہیں جو اتاترک نے رائج کی ہیں۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لئے ان کا جائزہ لیں گے۔ کیا ترکی میں ایک عام مادی نقطۂ نظر کا نشو ونما اسلام کے منافی ہے؟ مسلمانوں میں ترک دنیا کا بہت رواج رہ چکا ہے۔ مسلمانوں کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ وہ حقائق کی طرف متوجہ ہوں۔ مادیت، مذہب کے خلاف کے ایک بڑا حربہ ہے۔ لیکن ملا اور صوفی کے پیشوں کے استیصال کے لئے ایک مؤثر حربہ ہے جو عمداً لوگوں کو اس غرض سے گرفتار حیرت کر دیتے ہیں کہ ان کی جہالت اور زود اعتقادی سے فائدہ اٹھائیں۔ اسلام کی روح مادہ کے قرب سے نہیں ڈرتی۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا دین میں جو حصہ ہے اس کو نہ بھولو، ایک غیرمسلم کے لئے اس کا سمجھنا دشوار ہے۔ گزشتہ چند صدیوں میں دنیائے اسلام کی جو تاریخ رہی ہے اس کے لحاظ سے مادی نقطۂ نظر کی ترقی متحقق ذات کی ایک صورت ہے۔ کیا لباس کی تبدیلی یا لاطینی رسم الخط کا رواج اسلام کے منافی ہے؟ اسلام کا بحیثیت ایک مذہب کے کوئی وطن نہیں اور بحیثیت ایک معاشرت کے اس کی نہ کوئی مخصوص زبان ہے اور نہ کوئی مخصوص لباس، قرآن کا ترکی زبان میں پڑھا جانا تاریخ اسلام میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی چند مثالیں موجود ہیں۔ ذاتی طور پر میں اس کو فکر ونظر کی ایک سنگین غلطی سمجھتا ہوں۔ کیونکہ عربی زبان وادب کا متعلم اچھی طرح جانتا ہے کہ غیر یورپی زبانوں میں اگر کسی زبان کا مستقبل ہے تو وہ عربی ہے۔ بہرحال اب یہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ ترکوں نے ملکی زبان میں قرآن پڑھنا ترک کر دیا ہے۔ تو کیا کثرت ازدواج کی ممانعت یا علماء پر لائسنس حاصل کرنے کی قید منافی اسلام ہے؟ فقہ اسلام کی رو سے ایک اسلامی ریاست کا امیر مجاز ہے کہ شرعی، اجازتوں کو منسوخ کر دے۲۷؎۔ مستقبل ہے تو وہ عربی ہے۔ بہرحال اب یہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ ترکوں نے ملکی زبان میں قرآن پڑھنا ترک کر دیا ہے۔ تو کیا کثرت ازدواج کی ممانعت یا علماء پر لائسنس حاصل کرنے کی قید منافی اسلام ہے؟ فقہ اسلام کی رو سے ایک اسلامی ریاست کا امیر مجاز ہے کہ شرعی، اجازتوں کو منسوخ کر دے۲۷؎۔
بشرطیکہ اس کو یقین ہو جائے کہ یہ اجازتیں، معاشرتی فساد پیدا کرنے کی طرف مائل ہیں۔ رہا علماء کا لائسنس حاصل کرنا، آج مجھے اختیار ہوتا تو یقینا میں اسے اسلامی ہند میں نافذ کر دیتا۔ ایک اوسط مسلمان کی سادہ لوحی زیادہ تر افسانہ تراش ملا کی ایجادات کا نتیجہ ہے۔ قوم کی مذہبی زندگی سے ملاؤں کو الگ کر کے اتاترک نے وہ کام کیا جس سے ابن تیمیہؒ یا شاہ ولی اﷲؒ کا دل مسرت سے لبریز ہو جاتا۔ رسول کریم(ﷺ) کی ایک حدیث مشکوٰۃ میں درج ہے۔ جس کی رو سے وعظ کرنے کا حق صرف اسلامی ریاست کے امیر یااس کے مقرر کردہ شخص یا اشخاص کو حاصل ہے۔ خبر نہیں اتاترک اس حدیث سے واقف ہیں یا نہیں؟ تاہم یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ اس کے اسلامی ضمیر کی روشنی نے اس اہم ترین معاملہ میں اس کے میدان عمل کو کس طرح منور کر دیا