ترین افراد کو متاثر کیا۔ ہمارے زمانے کے بعض جلیل القدر علماء جیسے مفتی محمد عبدہ اور نئی پود کے بعض افراد جو آگے چل کر سیاسی قائد بن گئے۔ جیسے مصر کے زاغلول پاشا وغیرہ انہیں کے شاگردوں میں سے تھے۔ انہوں نے لکھا کم اور کہا بہت اور اس طریقہ سے ان تمام لوگوں کو جنہیں ان کا قرب حاصل ہوا۔ چھوتے چھوتے جمال الدین بنادیا۔ انہوں نے کبھی نبی یا مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ پھر بھی ہمارے زمانے کے کسی شخص نے روح اسلام میں اس قدر تڑپ پیدا نہیں کی جس قدر کہ انہوں نے کی تھی۔ ان کی روح اب بھی دنیائے اسلام میں سرگرم عمل ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کی انتہاء کہاں ہوگی؟
بہرحال اب یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ان جلیل القدر ہستیوں کی غایت کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے دنیائے اسلام میں تین مخصوص قوتوں کو حکمران پایا اور ان قوتوں کے خلاف بغاوت پیدا کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت کو مرتکز کر دیا۔
۱… ملائیت: علماء ہمیشہ اسلام کے لئے ایک قوت عظیم کا سرچشمہ رہے ہیں۔ لیکن صدیوں کے مرور کے بعد خاص کر زوال بغداد کے زمانہ سے وہ بے حد قدامت پرست بن گئے اور آزادی اجتہاد (یعنی قانونی امور میں آزاد رائے قائم کرنا) کی مخالفت کرنے لگے۔ وہابی تحریک جو انیسویں صدی کے مصلحین اسلام کے لئے حوصلہ افروز تھی درحقیقت ایک بغاوت تھی۔
علماء کے اس جمود کے خلاف، پس انیسویں صدی کے مصلحین اسلام کا پہلا مقصد یہ تھا کہ عقائد کی جدید تفسیر کی جائے اور بڑھتے ہوئے تجربے کی روشنی میں قانون کی جدید تعبیر کرنے کی آزادی حاصل کی جائے۔
۲… تصوف: مسلمانوں پر ایک ایسا تصوف مسلط تھا جس نے حقائق سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ جس نے عوام کی قوت عمل کو ضعیف کر دیا تھا اور ان کو ہر قسم کے توہم میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تصوف اپنے اس اعلیٰ مرتبہ سے جہاں وہ روحانی تعلیم کی ایک قوت رکھتا تھا۔ نیچے گر کر عوام کی جہالت اور زود اعتقادی سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بن گیا تھا۔ اسی نے بتدریج اور غیر محسوس طریقہ پر مسلمانوں کی قوت ارادی کو کمزور اور اس قدر نرم کر دیا تھا کہ مسلمان اسلامی قانون کی سختی سے بچنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ انیسویں صدی کے مصلحین نے اس قسم کے تصوف کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور مسلمانوں کو عصر جدید کی روشنی کی طرف دعوت دی۔ یہ نہیں کہ یہ مصلحین مادہ پرست تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اسلام کی اس روح سے آشنا ہو جائیں جو مادہ سے گریز کرنے کی بجائے اس کی تسخیر کی کوشش کرتی ہے۔