محسوس کر لیا کہ دنیا میں اس کا کیا مؤقف ہے؟ انیسویں صدی میں سرسید احمد خاں ہندوستان میں، سید جمال الدین افغانی افغانستان میں اور مفتی عالم جان روس میں پیدا ہوئے۔ یہ حضرات غالباً محمد بن عبدالوہاب سے متأثر ہوئے تھے۔ جن کی ولادت ۱۷۰۰ء میں بمقام نجد ہوئی تھی اور جو اس نام نہاد وہابی تحریک کے بانی تھے۔ جس کو صحیح طور پر جدید اسلام میں زندگی کی پہلی تڑپ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ سراسید احمد خان کا اثر بحیثیت مجموعی ہندوستان ہی تک محدود رہا۔ غالباً یہ عصر جدید کے پہلے مسلمان تھے۔ جنہوں نے آنے والے دور کی جھلک دیکھی تھی اور یہ محسوس کیا تھا کہ ایجابی علوم اس دور کی خصوصیت ہے۔ انہوں نے نیز روس میں مفتی عالم جان نے، مسلمانوں کی پستی کا علاج جدید تعلیم کو قرار دیا۔ مگر سرسید احمد خان کی حقیقی عظمت اس واقعہ پر مبنی ہے کہ یہ پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں۔ جنہوں نے اسلام کو جدید رنگ میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی اور اس کے لئے سرگرم عمل ہوگئے۔ ہم ان کے مذہبی خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی حساس روح نے سب سے پہلے عصر جدید کے خلاف رد عمل کیا۔
مسلمانان ہند کی انتہائی قدامت پرستی جو زندگی کے حقائق سے دور ہوگئی تھی۔ سرسید احمد خاں کے مذہبی نقطہ نظر کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھ سکی۔ ہندوستان کے شمال مغربی حصہ میں جو ابھی تہذیب کی ابتدائی منزل میں ہے اور جہاں دیگر اقطاع ہند کے مقابلہ میں پیر پرستی زیادہ مسلط ہے۔ سرسید کی تحریک کے خلاف قادیانیت کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک میں سامی اور آریائی تصوف کی عجیب وغریب آمیزش تھی اور اس میں کسی فرد کا روحانی احیاء قدیم اسلامی تصوف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوسکتا تھا۔ بلکہ مسیح موعود کی آمد کو پیش کر کے عوام کی کیفیت کو تشفی انتظار دی جاتی تھی۔ اس مسیح موعود کا فرض یہ نہیں تھا کہ فرد کو موجودہ پستی سے نجات دلائے بلکہ اس کا کام یہ تعلیم دینا ہے کہ لوگ اپنی روح کو غلامانہ طور پر پستی اور انحطاط کے سپرد کردیں۔ اس رد عمل ہی کے اندر ایک نازک تضاد مضمر ہے۔ یہ تحریک اسلام کے ضوابط کو برقرار رکھتی ہے۔ لیکن اس قوت ارادی کو فنا کر دیتی ہے۔ جس کو اسلام مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
مولانا سید جمال الدین افغانی کی شخصیت کچھ اور ہی تھی۔ قدرت کے طریقے بھی عجیب وغریب ہوتے ہیں۔ مذہبی فکر وعمل کے لحاظ سے ہمارے زمانہ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ مسلمان افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ جمال الدین افغانی دنیائے اسلام کی تمام زبانوں سے واقف تھے۔ ان کی فصاحت وبلاغت میں سحر آفرینی ودیعت تھی۔ ان کی بے چین روح ایک اسلامی ملک سے دوسرے اسلامی ملک کا سفر کرتی رہی اور اس نے ایران، مصر اور ترکی کے ممتاز