اظہار شہنشاہی مصلحتوں کی بناء پر کیا یا وسعت نظر کی وجہ سے۔ اس قدر تو بالکل واضح ہے کہ اس رواداری نے اسلام کے لئے پیچیدہ مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ اسلام کی اس ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے جیسا کہ میں نے اس کو سمجھا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اسلام ان دشواریوں سے جو اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں زیادہ پاک وصاف ہوکر نکلے گا۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ ہندوستان کے حالات ایک نیا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ جمہوریت کی نئی روح جو ہندوستان میں پھیل رہی ہے۔ وہ یقینا قادیانیوں کی آنکھیں کھول دے گی۔ انہیں یقین ہو جائے گا کہ ان کی دینیاتی ایجادات بالکل بے سود ہیں۔
اسلام قرون وسطیٰ کے اس تصوف کی تجدید کو بھی روانہ رکھے گا۔ جس نے اپنے پیروؤں کے صحیح رجحانات کو کچل کر ایک مبہم تفکر کی طرف ان کا رخ موڑ دیا۔ اس تصوف نے گزشتہ چند صدیوں میں مسلمانوں کے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کر کے اور سلطنت کو معمولی آدمیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا۔ جدید اسلام اس تجربہ کو دہرا نہیں سکتا اور نہ وہ پنجاب کے اس تجربے کے اعادے کو روا رکھ سکتا ہے۔ جس نے مسلمانوں کو نصف صدی تک ایسے دینیاتی مسائل میں الجھائے رکھا۔ جن کا زندگی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ا سلام جدید تفکر اور تجربے کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور کوئی ولی یا پیغمبر اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکی کی طرف واپس نہیں لے جاسکتا۔
اب میں پنڈت جواہر لال کے سوالات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ پنڈت جی کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلام یا انیسویں صدی کے اسلام کی مذہبی تاریخ سے بالکل ناواقف ہیں۔ انہوں نے شاید میری تحریرات کا مطالعہ بھی نہیں کیا ہے؟ جن میں ان کے سوالات پر بحث کی گئی ہے۔ میرے لئے یہاں ان تمام خیالات کا اعادہ کرنا ممکن نہیں۔ جن کو میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ انیسویں صدی کے مسلمانوں کی مذہبی تاریخ کو پیش کرنا بھی یہاں ممکن نہیں۔ جس کے بغیر دنیائے اسلام کی موجودہ صورتحال کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہے۔ ترکی اور جدید اسلام کے متعلق سینکڑوں کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں۔ اس لٹریچر کے بیشتر حصہ کا مطالعہ کر چکا ہوں اور غالباً پنڈت جواہر لال نہرو بھی اس کا مطالعہ کر چکے ہوں گے۔ بہرحال میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ان میں سے ایک مصنف نے بھی ان نتائج یا ان اسباب کی اصل ماہیت کو نہیں سمجھا جو ان نتائج کا باعث ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے تفکر کے خصوصی رجحانات کو جو انیسویں صدی کے ایشیاء میں پائے جاتے ہیں۔ اجمالی طور پر بیان کر دینا ضروری ہے۔
میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ ۱۷۹۹ء میں اسلام کا سیاسی زوال اپنی انتہاء کو پہنچ چکاتھا۔ بہرحال اسلام کی اندرونی قوت کا اس واقعہ سے بڑھ کر کیا ثبوت مل سکتا ہے کہ اس نے فوراً ہی