قدامت پسند ہونے کا الزام لگائیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ قادیانیت کی اصل نوعیت کو سمجھ لیتے تو مسلمانان ہند کے اس رویہ کی ضرور تعریف وتحسین کرتے جو ایک ایسی مذہبی تحریک کے متعلق اختیار کیاگیا ہے۔ جو ہندوستان کے تمام آفات ومصائب کے لئے الہامی سند پیش کرتی ہے۔
پس قارئین کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ اسلام کے رخساروں پر اس وقت قادیانیت کی جو زردی نظر آرہی ہے۔ وہ مسلمانان ہند کے مذہبی تفکر کی تاریخ میں کوئی ناگہانی واقعہ نہیں ہے۔ وہ خیالات جو بالآخر اس تحریک میں رونما ہوئے ہیں۔ بانی قادیانیت کی ولادت سے پہلے دینیاتی مباحث میں نمایاں رہ چکے ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ بانی قادیانیت اور اس کے رفقاء نے سوچ سمجھ کر اپنا پروگرام تیار کیا ہے۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ بانی قادیانیت نے ایک آواز سنی۔ لیکن اس امر کا تصفیہ کہ یہ آواز اس خدا کی طرف سے تھی۔ جس کے ہاتھ میں زندگی اور طاقت ہے یا لوگوں کے روحانی افلاس سے پیدا ہوئی۔ اس تحریک کی نوعیت پر منحصر ہونا چاہئے۔ جو اس آواز کی آفریدہ ہے اور ان افکار وجذبات پر بھی جو اس آواز نے اپنے سننے والوں میں پیدا کئے ہیں۔ قارئین یہ نہ سمجھیں کہ میں استعارات استعمال کر رہا ہوں۔ اقوام کی تاریخ حیات بتلاتی ہے کہ جب کسی قوم کی زندگی میں انحطاط شروع ہو جاتا ہے تو انحطاط ہی الہام کا ماخذ بن جاتا ہے اور اس قوم کے شعراء فلاسفہ، اولیائ، مدبرین اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور مبلغین کی ایک ایسی جماعت وجود میں آجاتی ہے۔ جس کا مقصد واحد یہ ہوتا ہے کہ منطق کی سحر آفرین قوتوں سے اس قوم کی زندگی کے ہر اس پہلو کی تعریف وتحسین کرے جو نہایت ذلیل وقبیح ہوتا ہے۔ یہ مبلغین غیر شعوری طور پر مایوسی کو امید کے درخشاں لباس میں چھپا دیتے ہیں۔ کردار کے روایتی اقتدار کی بیخ کنی کرتے ہیں اور اس طرح ان لوگوں کی روحانی قوت کو مٹادیتے ہیں جو ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی قوت ارادی پر ذرا غور کرو۔ جنہیں الہام کی بنیاد پر یہ تلقین کی جاتی ہے کہ اپنے سیاسی ماحول کو اٹل سمجھو۔
پس میرے خیال میں وہ تمام ایکٹر جنہوں نے قادیانیت کے ڈرامہ میں حصہ لیا ہے۔ زوال اور انحطاط کے ہاتھوں میں محض سادہ لوح کٹ پتلی بنے ہوئے تھے۔ ایران میں بھی اسی قسم کا ایک ڈرامہ کھیلا گیا تھا۔ لیکن اس میں نہ وہ سیاسی اور مذہبی امور پیدا ہوئے اور نہ ہو سکتے تھے۔ جو قادیانیت نے اسلام کے لئے ہندوستان میں پیدا کئے ہیں۔ روس نے بابی مذہب کو روا رکھا اور بابیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنا پہلا تبلیغی مرکز عشق آباد میں قائم کریں۔ انگلستان نے بھی قادیانیوں کے ساتھ رواداری برتی اور ان کو اپنا پہلا تبلیغی مرکز ووکنگ میں قائم کرنے کی اجازت دی۔ ہمارے لئے اس امر کا فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ آیا روس اور انگلستان نے ایسی رواداری کا اظہار