عام آدمی کے نقطہ نظر سے ایک اور مؤثر اور مفید طریقہ یہ ہے کہ ۱۷۹۹ء سے ہندوستان میں اسلامی دینیات کی جو تاریخ رہی ہے۔ اس کی روشنی میں قادیانیت کے اصل مظروف کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ دنیائے اسلام کی تاریخ میں ۱۷۹۹ء بے حد اہم ہے۔ اس سال ٹیپو کو شکست ہوئی۔ اس کی شکست کے ساتھ مسلمانوں کو ہندوستان میں سیاسی نفوذ حاصل کرنے کی جو امید تھی اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اسی سال ’’جنگ نوارینو‘‘ وقوع پذیر ہوئی۔ جس میں ترکی کا بیڑہ تباہ ہوگیا۲۶؎۔ جو لوگ سرنگا پٹم گئے ہیں۔ ان کو ٹیپو کے مقبرے پر یہ تاریخ وفات کندہ نظر آئی ہوگی۔ ’’ہندوستان اور روم کی عظمت ختم ہوگئی۔‘‘
ان الفاظ کے مصنف نے پیش گوئی کی تھی۔ پس ۱۷۹۹ء میں ایشیاء میں اسلام کا انحطاط انتہاء کو پہنچ گیا تھا۔ لیکن جس طرح ژینا میں جرمنی کی شکست کے بعد جدید جرمن قوم کا نشوونما ہوا۔ کہا جاسکتا ہے کہ اسی طرح ۱۷۹۹ء میں اسلام کی سیاسی شکست کے بعد جدید اسلام اور اس کے مسائل معرض ظہور میں آئے۔ اس امر پر میں آگے چل کر بحث کروں گا۔ فی الحال میں قارئین کی توجہ چند مسائل کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جو ٹیپو کی شکست اور ایشیاء میں مغربی شہنشاہیت کی آمد کے بعد اسلامی ہند میں پیدا ہوگئے ہیں۔
کیا اسلام میں خلافت کا تصور ایک مذہبی ادارے کو مستلزم ہے؟ مسلمانان ہند اور وہ مسلمان جو ترکی سلطنت سے باہر ہیں۔ ترکی خلافت سے کیا تعلق رکھتے ہیں؟ ہندوستان دارالحرب ہے یا دارالاسلام؟ اسلام میں نظریہ جہاد کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ قرآن کی آیت خدا رسول اور تم میں سے اولی الامر کی اطاعت کرو۔ ’’اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامرمنکم (النسائ:۵۹)‘‘ میں الفاظ تم میں سے کا کیا مفہوم ہے؟ احادیث سے آمد مہدی کی جو پیشین گوئی کی جاتی ہے۔ اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور اسی قبیل کے دوسرے سوالات جو بعد میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بداہتہً صرف مسلمانان ہند سے تھا۔ اس کے علاوہ مغربی شہنشاہیت کو بھی جو اس وقت اسلامی دنیا میں سرعت کے ساتھ تسلط حاصل کر رہی تھی۔ ان سوالات سے گہری دلچسپی تھی۔ ان سوالات سے جو مناقشات پیدا ہوئے وہ اسلامی ہند کی تاریخ کا ایک باب ہیں۔ یہ حکایت دراز ہے اور ایک طاقتور قلم کی منتظر، مسلمان ارباب سیاست جن کی آنکھیں واقعات پر جمی ہوئی تھیں۔ علماء کے ایک طبقہ کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ دینیاتی استدلال کا ایک ایسا طریقہ اختیار کریں جو صورتحال کے مناسب ہو۔ لیکن محض منطق سے ایسے عقائد پر فتح پانا آسان نہ تھا۔ جو صدیوں سے مسلمانان ہند کے قلوب پر حکمران تھے۔ ایسے حالات میں منطق یا