۔ اس میں شک نہیں کہ شیخ کے نقطہ نظر سے ایک ہی زمانہ اور ملک میں ایک سے زیادہ اولیاء موجود ہوسکتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ نفسیاتی نقطۂ نظر سے ایک ولی کا شعور نبوت تک پہنچنا اگرچہ ممکن ہے۔ تاہم اس کا تجربہ اجتماعی اور سیاسی اہمیت نہیں رکھتا اور نہ اس کو کسی نئی تنظیم کا مرکز بناتا ہے اور یہ استحقاق عطاء کرتا ہے کہ وہ اس نئی تنظیم کو پیروان محمد (ﷺ) کے ایمان یا کفر کا معیار قرار دے۔
اس صوفیانہ نفسیات سے قطع نظر کر کے فتوحات کی متعلقہ عبارتوں کو پڑھنے کے بعد میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہسپانیہ کا یہ عظیم الشان صوفی محمد(ﷺ) کی ختم نبوت پر اسی طرح مستحکم ایمان رکھتا ہے۔ جس طرح کہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان رکھ سکتا ہے۔ اگر شیخ کو اپنے صوفیانہ کشف میں یہ نظر آجاتا کہ ایک روز مشرق میں چند ہندوستانی جنہیں تصوف کا شوق ہے شیخ کی صوفیانہ نفسیات کی آڑ میں پیغمبر اسلام کی ختم نبوت سے انکار کر دیں گے تو یقینا علماء ہند سے پہلے مسلمانان عالم کو ایسے غداران اسلام سے متنبہ کر دیتے۔
اب قادیانیت کی روح پر غور کرنا ہے۔ اس کے ماخذ اور اس امر کی بحث کہ قبل اسلام مجوسی تصورات نے اسلامی تصوف کے ذریعہ بانی ٔ قادیانیت کے ذہن کو کس طرح متأثر کیا؟ مذہب متقابلہ کی نظر سے بے حد دلچسپ ہوگی۔ لیکن میرے لئے اس بحث کو اٹھانا ممکن نہیں۔ یہ کہہ دینا کافی ہے کہ قادیانیت کی اصل حقیقت قرون وسطیٰ کے تصوف اور دینیات کے نقاب میں پوشیدہ ہے۔ علماء ہند نے اس کو محض ایک دینیاتی تحریک تصور کیا اور دینیاتی حربوں سے اس کا مقابلہ کرنے نکل آئے۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ طریقہ موزوں نہیں تھا۔ اس وجہ سے علماء کو کچھ زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ بانی قادیانیت کے الہامات کی اگر دقیق النظری سے تحلیل کی جائے تو یہ ایک ایسا مؤثر طریقہ ہوگا۔ جس کے ذریعہ سے ہم اس کی شخصیت اور اندرونی زندگی کا تجزیہ کر سکیں گے۔ اس سلسلہ میں میں اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ منظور الٰہی نے بانی قادیانیت کے الہامات کا جو مجموعہ شائع کیا ہے۔ اس میں نفسیاتی تحقیق کے لئے متنوع اور مختلف مواد موجود ہے۔ میری رائے میں یہ کتاب بانی قادیانیت کی سیرت اور شخصیت کی کنجی ہے اور مجھے امید ہے کہ کسی دن نفسیات جدید کا کوئی متعلم اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے گا۔ اگر وہ قرآن کو اپنا معیار قرار دے (اور چند وجوہ سے اس کو ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ جن کی تشریح یہاں نہیں کی جاسکتی) اور اپنے مطالعہ کو بانی قادیانیت اور اس کے ہم عصر غیر صوفیاء جیسے رام کرشنا بنگالی کے تجربوں تک پھیلائے تو اس کو اس تجربہ کی اصل ماہیت کے متعلق بڑی حیرت ہوگی۔ جس کی بناء پر بانی قادیانیت نبوت کا دعویدار ہے۔