ہے۔ اسلام کا سیدھا سادھا مذہب دو قضایا پر مبنی ہے۔ خدا ایک ہے اور محمد(ﷺ) اس سلسلہ انبیاء کے آخری نبی ہیں جو وقتاً فوقتاً ہر ملک اور ہر زمانے میں اس غرض سے مبعوث ہوتے تھے کہ نوع انسان کی رہنمائی صحیح طرز زندگی کی طرف کریں۔ جیسا کہ بعض عیسائی مصنفین خیال کرتے ہیں کہ کسی تحکمی عقیدے کی تعریف اسی طرح کی جانی چاہئے کہ وہ ایک فوق العقلی قضیہ ہے اور اس کو مذہبی استحکام کی خاطر اور اس کا مابعد الطبیعی مفہوم سمجھے بغیر مان لینا چاہئے تو اس لحاظ سے اسلام کے ان دو سادہ قضایا کو تحکمی عقیدے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان دونوں کی تائید نوع انسان کے تجربہ سے ہوتی ہے اور ان کی عقلی توجیہ بخوبی کی جاسکتی ہے۔ ایسے الحاد کا سوال جہاں یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ آیا اس کا مرتکب دائرہ مذہب میں ہے یا اس سے خارج ہے؟ ایسی مذہبی جماعت میں جو ایسے سادہ قضایا پر مبنی ہو، اس صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ ملحدان قضایا میں سے کسی ایک یا دونوں سے انکار کر دے۔ تاریخ اسلام میں ایسا واقعہ شاذ ہی وقوع پذیر ہوا ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے۔ کیونکہ جب اس قسم کی کوئی بغاوت پیدا ہوتی ہے تو ایک اوسط مسلمان کا احساس قدرتی طور پر شدید ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ایران کا احساس بہائیوں کے خلاف اس قدر تھا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانان ہند کا احساس قادیانیوں کے خلاف اس قدر شدید ہے۔
یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی فرقے فقہ اور دینیات کے فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے اکثر وبیشتر، ایک دوسرے میں الحاد کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ دینیات کے فروعی مسائل کے اختلاف ہیں اور نیز الحاد کی ایسی انتہائی صورتوں میں جہاں ملحد کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے۔ لفظ کفر کے غیرمحتاط استعمال کو آج کل کے تعلیم یافتہ مسلمان، جو مسلمانوں کے دینیاتی مناقشات کی تاریخ سے بالکل ناواقف ہیں۔ ملت اسلامیہ کے اجتماعی وسیاسی انتشار کی علامت تصور کرتے ہیں۔ یہ ایک بالکل غلط تصور ہے۔ اسلامی دینیات کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروعی مسائل کے اختلاف میں ایک دوسرے پر الحاد کا الزام لگانا باعث انتشار ہونے کی بجائے دینیاتی تفکر کو متحد کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ پروفیسر ہرگرؤنج (Hurgruoung) کہتے ہیں کہ جب ہم فقہ اسلامی کے نشوونما کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہر زمانے کے علماء خفیف سے اشتعال کے باعث ایک دوسرے کی مذمت یہاں تک کرتے ہیں کہ ایک دوسرے پر کفر کا الزام عائد ہوجاتا ہے اور دوسری طرف یہی لوگ زیادہ سے زیادہ اتحاد عمل کے ساتھ اپنے پیشروؤں کے اختلاف رفع کرتے ہیں۔ اسلامی دینیات کا متعلم جانتا ہے کہ مسلم فقہاء اس قسم کے الحاد کو اصطلاحی زبان میں کفر زیر کفر سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی ایسا کفر جس میں