پر یہ محسوس کرتے ہوں کہ اس جماعت کی اجتماعی زندگی خطرہ میں ہے۔ جس کے یہ رکن ہیں تو ان کے مدافعانہ طرز عمل کو حیاتیاتی معیار پر جانچنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ہر فکر عمل کی تحقیق اس لحاظ سے کرنی چاہئے کہ اس میں حیات افروزی کس قدر ہے؟ یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ ایسے شخص کے متعلق جو ملحد قرار دیا گیا ہو۔ کسی فرد یا جماعت کا رویہ اخلاقاً صائب ہے یا غیر صائب؟ سوال یہ ہے کہ یہ حیات افروز ہے یا حیات کش؟ پنڈت جواہر لال نہرو خیال کرتے ہیں کہ جو جماعت مذہبی اصولوں پر قائم ہوئی ہے وہ محکمہ احتساب۲۵؎ کے قیام کو مستلزم ہے۔ تاریخ مسیحیت کے متعلق یہ بات صحیح ہوسکتی ہے۔ لیکن تاریخ اسلام پنڈت جی کی منطق کے خلاف یہ ثابت کرتی ہے کہ حیات اسلامی کے گزشتہ تیرہ سو سال میں اسلامی ممالک محکمہ احتساب سے بالکل ناآشنا رہے ہیں۔قرآن واضح طور پر ایسے ادارے کی ممانعت کرتا ہے: ’’دوسروں کی کمزوریوں کی تلاش نہ کرو اور بھائیوں کی چغلی نہ کھاؤ۔ (ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضاً۰ الحجرات:۱۲)‘‘ پنڈت جی کو تاریخ اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ یہودی اور عیسائی اپنے وطن کے مذہبی تشدد سے تنگ آکر اسلامی ممالک میں پناہ لیتے تھے۔ جن دو قضایا پر اسلام کی تعقلی عمارت قائم ہے۔ وہ اس قدر سادہ ہیں کہ ان میں ایسا الحاد ناممکن ہے۔ جس سے ملحد دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ جب کوئی شخص ایسے ملحدانہ نظریات کو رواج دیتا ہے۔ جن سے نظام اجتماعی خطرہ میں پڑ جاتا ہو۔ تو ایک آزادانہ اسلامی ریاست یقینا اس کا انسداد کرے گی۔ لیکن ایسی صورت میں ریاست کا فعل سیاسی مصلحتوں پر مبنی ہوگا۔ نہ کہ خالص مذہبی اصولوں پر۔ میں اس بات کو اچھی طرح محسوس کرتا ہوں کہ پنڈت جی ایسا شخص، جس کی پیدائش اور تربیت ایک ایسی جماعت میں ہوئی ہو جس کی سرحدیں متعین نہیں ہیں اور جس میں اندرونی استحکام بھی مفقود ہے۔ اس امر کا بمشکل اندازہ کر سکتا ہے کہ ایک مذہبی جماعت ایسے محکمہ احتساب کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے جو حکومت کی جانب سے عوام کے عقائد کی تحقیقات کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ یہ بات کارڈنل نیومن (Cardinal Newman) کی اس عبارت سے بالکل واضح ہو جاتی ہے جو پنڈت جی پیش کر کے حیرت کرتے ہیں کہ میں کارڈنل کے اصولوں کو کس حد تک اسلام پر قابل اطلاق سمجھتا ہوں؟ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی اندرونی ہیئت ترکیبی اور کیتھولک مسیحیت میں اختلاف عظیم ہے۔ کیتھولک مسیحیت کی پیچیدگی اس کی فوق العقلی نوعیت اور تحکمی عقائد کی کثرت نے، جیسا کہ تاریخ مسیحیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ ملحدانہ تاویلات کے لئے راستہ کھول دیا