احساس رکھتے ہیں۔ ایک اوسط مسلمان کا یہ جبلی ادراک میری رائے میں بالکل صحیح ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس احساس کی بنیاد مسلمانان ہند کے ضمیر کی گہرائیوں میں ہے۔ اس قسم کے معاملات میں جو لوگ رواداری کا نام لیتے ہیں وہ لفظ رواداری کے استعمال میں بے حد غیر محتاط ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ اس لفظ کو بالکل نہیں سمجھتے۔ گبن کہتا ہے کہ ایک رواداری فلسفی کی ہوتی ہے۔ جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر صحیح ہیں۔ ایک رواداری مؤرخ کی ہے جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر غلط ہیں۔ ایک رواداری مدبر کی ہے جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر مفید ہیں۔ ایک رواداری ایسے شخص کی ہے جو ہر قسم کے فکر وعمل کے طریقوں کو روا رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر قسم کے فکر وعمل سے بے تعلق ہوتا ہے۔ ایک رواداری کمزور آدمی کی ہے۔ جو محض کمزوری کی وجہ سے ہر قسم کی ذلت کو جو اس کی محبوب اشیاء یا اشخاص پر کی جاتی ہے برداشت کر لیتا ہے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ اس قسم کی رواداری اخلاقی قدر سے معرا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اس سے اس شخص کے روحانی افلاس کا اظہار ہوتا ہے۔ جو ایسی رواداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ حقیقی رواداری عقلی اور روحانی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ رواداری ایسے شخص کی ہوتی ہے جو روحانی حیثیت سے قوی ہوتا ہے اور اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کو روا رکھتا ہے اور ان کی قدر کر سکتا ہے۔ ایک سچا مسلمان ہی اس قسم کی رواداری کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خود اس کا مذہب اختلافی ہے۔ اس وجہ سے وہ بآسانی دوسرے مذاہب سے ہمدردی رکھ سکتا ہے اور ان کی قدر کر سکتا ہے۔ ہندوستان کے شاعر اعظم امیر خسرو نے ایک بت پرست کے قصہ میں اس قسم کی رواداری کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس کی بتوں سے بے اندازہ محبت کے تذکرہ کے بعد شاعر اپنے مسلمان قارئین کو یوں مخاطب کرتا ہے ؎
اے کہ زبت طعنہ بہ ہندی بری
ہم زوے آموز پرستش گری
ترجمہ: اے ہندیوں کی بت پرستی پہ طعن کرنے والے تو ان سے پرستش کا طریقہ سیکھ۔
خدا کا ایک سچا پرستار ہی عبادت وپرستش کی قدر وقیمت کو محسوس کر سکتا ہے۔ خواہ اس پرستش کا تعلق ایسے ارباب سے ہو جن پر وہ اعتقاد نہیں رکھتا۔ رواداری کی تلقین کرنے والے اس شخص پر عدم رواداری کا الزام لگانے میں غلطی کرتے ہیں۔ جو اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس طرز عمل کو وہ غلطی سے اخلاقی کمتری خیال کرتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ (اس) طرز عمل میں حیاتیاتی قدروقیمت مضمر ہے۔ جب کسی جماعت کے افراد جبلی طور یا کسی عقلی دلیل کی بناء