ایک عظیم الشان مسئلے سے جو دلچسپی ہے، میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میری رائے میں یہ پہلے ہندوستانی قوم پرست قائد ہیں۔ جنہوں نے دنیائے اسلام کی موجودہ روحانی بے چینی کو سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس بے چینی کے مختلف پہلوؤں اور ممکن ردعمل کے مدنظر ہندوستان کے ذی فکر سیاسی قائدین کو چاہئے کہ اس وقت قلب اسلام میں جو چیز ہیجان پیدا کر رہی ہے اس کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
بہرحال میں اس واقعہ کو پنڈت جی اور قارئین سے پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتا کہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کا ایک دردناک ہیجان پیدا کر دیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ پنڈت جی ایک ایسے انسان ہیں جو مختلف تہذیبوں سے وسیع ہمدردی رکھتے ہیں۔ میرا ذہن اس خیال کی طرف مائل ہے کہ جن سوالات کو وہ سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ بالکل خلوص پر مبنی ہے۔ تاہم جس طریقے سے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے ایسی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنا میرے لئے دشوار ہے۔ میں اس خیال کی طرف مائل ہوں کہ میں نے قادیانیت کے متعلق جو بیان دیا تھا (جس میں ایک مذہبی نظریہ کی محض جدید اصول کے مطابق تشریح کی گئی تھی) اس سے پنڈت جی اور قادیانی دونوں پریشان ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بناء پر دونوں اپنے دل میں مسلمانان ہند کے مذہبی اور سیاسی استحکام کو پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے حقائق کو کچل ڈالا ہے۔ اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساس خود مختاری پیدا ہو۔ میری رائے میں ان کا یہ خیال غلط ہے کہ ہندوستانی قومیت کے لئے ملک کی مختلف تہذیبوں کو مٹا دینا چاہئے۔ حالانکہ ان تہذیبوں کے باہمی عمل واثر سے ہندوستان ایک ترقی پذیر اور پائیدار تہذیب کو نمودے سکتا ہے۔ ان طریقوں سے جو تہذیب نمو پائے گی اس کا نتیجہ بجز باہمی تشدد اور تلخی کے اور کیا ہوگا؟ یہ بات بھی بدیہی ہے کہ قادیانی بھی مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانان ہند کے سیاسی نفوذ کی ترقی سے ان کا یہ مقصد یقینا فوت ہوجائے کہ پیغمبر عرب (ﷺ) کی امت سے ہندوستانی پیغمبر کی ایک نئی امت تیار کریں۔ حیرت کی بات ہے کہ میری یہ کوشش کہ مسلمانان ہند کو اس امر سے متنبہ کروں کہ ہندوستان کی تاریخ میں جس دور سے وہ گزر رہے ہیں۔ اس میں ان کا اندرونی استحکام کس قدر ضروری ہے اور ان انتشار انگیز قوتوں سے محترز رہنا کس قدر ناگزیر ہے۔ جو اسلامی تحریکات کے بھیس میں پیش ہوتی ہیں۔ پنڈت جی کو یہ موقع دیتی ہے کہ ایسی تحریکوں سے ہمدردی کریں۔