یہ ہے کہ وہ اسلام سے اس سے کہیں دور ہیں۔ جتنے سکھ، ہندوؤں سے کیونکہ سکھ ہندوؤں سے باہمی شادیاں کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہندوؤں میں پوجا نہیں کرتے۔
ثالثاً… اس امر کو سمجھنے کے لئے کسی خاص ذہانت یا غور وفکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ پھر وہ سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رہنے کے لئے کیوں مضطرب ہیں؟ علاوہ سرکاری ملازمتوں کے فوائد کے ان کی موجودہ آبادی جو ۵۶۰۰۰ (چھپن ہزار) ہے۔ انہیں کسی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں دلاسکتی اور اس لئے انہیں سیاسی اقلیت کی حیثیت بھی نہیں مل سکتی۔ یہ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ قادیانیوں نے اپنی جداگانہ سیاسی حیثیت کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مجالس قانون ساز میں ان کی نمائندگی نہیں ہوسکتی۔ نئے دستور میں ایسی اقلیتوں کے تحفظ کا علیحدہ لحاظ رکھا گیا ہے۔ لیکن میرے خیال میں قادیانی حکومت سے کبھی علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں پہل نہیں کریں گے۔ ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کردیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ ابھی اس قابل نہیں کہ جوتھی جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کی برائے نام اکثریت کو ضرب پہنچا سکے۔ حکومت نے ۱۹۱۹ء میں سکھوں کی طرف سے علیحدگی کے مطالبہ کا انتظار نہ کیا۔ اب وہ قادیانیوں سے ایسے مطالبہ کے لئے کیوں انتظار کر رہی ہے۔ (حرف اقبال ص۱۳۶تا۱۳۸)
اسلام اور احمدیت۲۴؎
ماڈرن ریویو، کلکتہ میں پنڈت جواہر لال نہرو کے تین مضامین شائع ہونے کے بعد مجھے اکثر مسلمانوں نے جو مختلف مذہبی وسیاسی مسلک رکھتے ہیں متعدد خطوط لکھے ہیں۔ ان میں سے بعض کی خواہش ہے کہ میں قادیانیوں کے بارے میں مسلمانان ہند کے طرز عمل کی مزید توضیح کروں اور اس طرز عمل کو حق بجانب ثابت کروں۔ بعض یہ دریافت کرتے ہیں کہ میں قادیانیت میں کس مسئلہ کو تنقیح طلب سمجھتا ہوں۔ اس بیان میں میں ان مطالبات کو پورا کرنا چاہتا ہوں۔ جن کو میں بالکل جائز تصور کرتا ہوں اور اس کے بعد ان سوالات کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ جو پنڈت جواہر لال نہرو نے اٹھائے ہیں۔ بہرحال مجھے اندیشہ ہے کہ اس بیان کا ایک حصہ پنڈت جی کے لئے دلچسپ نہ ہوگا۔ لہٰذا ان کا وقت بچانے کے لئے میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ ایسے حصوں کو نظر انداز کر دیں۔
یہ بیان کرنا میرے لئے ضروری نہیں کہ پنڈت جی کو مشرق کے، بلکہ ساری دنیا کے