عہد جدید کا انسان روحانی طور پر موبد سے بہت زیادہ آزاد منش ہے۔ موبدانہ رویہ کا نتیجہ یہ تھا کہ پرانی جماعتیں ختم ہوتیں اور ان کی جگہ مذہبی عیار نئی جماعتیں لاکھڑی کرتے۔ اسلام کی جدید دنیا میں جاہل اور جوشیلے ملا نے پریس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبل اسلامی نظریات کو بیسویں صدی میں رائج کرنا چاہا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اسلام، جو تمام جماعتوں کو ایک رسی میں پرونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ ایسی تحریک کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھ سکتا جو اس کی موجودہ وحدت کے لئے خطرہ ہو اور مستقبل میں انسانی سوسائٹی کے لئے مزید افتراق کا باعث بنے۔
اس سے قبل اسلامی موبدیت نے حال ہی میں جن دو صورتوں میں جنم لیا ہے میرے نزدیک ان میں بہائیت، قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے۔ کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے۔ لیکن مؤخر الذکر اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتی ہے۱۸؎۔ لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔ اس کا حاسد خدا کا تصور کہ جس کے پاس دشمنوں کے لئے لاتعداد زلزلے اور بیماریاں ہوں۔ اس کا نبی کے متعلق نجومی کا تخیل اور اس کا روح مسیح کے تسلسل کا عقیدہ وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہیں۔ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔ روح مسیح کا تسلسل یہودی باطنیت کا جزو ہے۔ پولی مسیح بال شیم Beal Shem کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر بوبر Buber کہتا ہے کہ مسیح کی روح پیغمبروں اور صالح آدمیوں کے واسطے سے زمین پر اتری، اسلامی ایران میں موبدانہ اثر کے ماتحت ملحدانہ تحریکیں اٹھیںاور انہوں نے بروز، حلول اور ظل وغیرہ اصطلاحات وضع کیں۔ تاکہ تناسخ کے اس تصور کو چھپا سکیں۔ ان اصطلاحات کا وضع کرنا اس لئے لازم تھا کہ وہ مسلم قلوب کو ناگوار نہ گزریں۔ حتیٰ کہ مسیح موعود کی اصطلاح بھی اسلامی نہیں بلکہ اجنبی ہے اور اس کا آغاز بھی اس موبدانہ تصور میں ملتا ہے۔ یہ اصطلاح ہمیں اسلام کے دور اوّل کی تاریخ اور مذہبی ادب میں نہیں ملتی۔ اس حیرت انگیز واقعہ کو پروفیسر ونسنک Wensinck نے اپنی کتاب موسومہ، ’’احادیث میں ربط میں نمایاں‘‘ کیا ہے۔ یہ کتاب احادیث کے گیارہ مجموعوں اور اسلام کے تین اوّلین تاریخی شواہد پر حاوی ہے اور یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اسلاف نے اس اصطلاح کو کیوں استعمال نہیں کیا؟ یہ اصطلاح انہیں غالباً اس لئے ناگوار تھی کہ اس سے تاریخی عمل کا غلط نظریہ قائم ہوتا تھا۔ خاکی ذہن وقت کو مدور حرکت تصور کرتا تھا۔ صحیح تاریخی عمل کو بحیثیت ایک تخلیقی حرکت کے ظاہر کرنے کی سعادت عظیم مسلمان مفکر اور مورخ یعنی ابن خلدون کے حصہ میں تھی۔