’’حکومت، قادیانیوں کو (مسلمانوں سے) ایک الگ جماعت تسلیم کرلے۔ یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگا اور مسلمان ان سے ویسی رواداری سے کام لے گا۔ جیسی وہ باقی مذاہب کے معاملہ میں اختیار کرتا ہے۔‘‘
قادیانی اور جمہور مسلمان۱۶؎
قادیانیوں اور جمہور مسلمانوں کی نزاع نے نہایت اہم سوال پیدا کیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے حال ہی میں اس کی اہمیت کو محسوس کرنا شروع کیا۔ میرا ارادہ تھا کہ انگریز قوم کو ایک کھلی چٹھی کے ذریعہ اس مسئلہ کے معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں سے آگاہ کروں۔ لیکن افسوس کہ صحت نے ساتھ نہ دیا۔ البتہ ایک ایسے معاملہ کے متعلق جو تمام ہندی مسلمانوں کی پوری قومی زندگی سے وابستہ ہے۔ میں نہایت مسرت سے کچھ عرض کروں گا۔ لیکن میں آغاز ہی میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی مذہبی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا اور نہ ہی میں قادیانی تحریک کے با۱۷؎نی کا نفسیاتی تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی چیز عام مسلمانوں کے لئے کچھ دلچسپی نہیں رکھتی اور دوسری کے لئے ہندوستان میں ابھی وقت نہیں آیا۔
ہندوستان کی سرزمین پر بے شمار مذاہب بستے ہیں۔ اسلام دینی حیثیت سے ان تمام مذاہب کی نسبت زیادہ گہرا ہے۔ کیونکہ ان مذاہب کی بناء کچھ حد تک مذہبی ہے اور ایک حد تک نسلی، اسلام نسلی تخیل کی سراسر نفی کرتا ہے اور اپنی بنیاد محض مذہبی تخیل پر رکھتا ہے اور چونکہ اس کی بنیاد صرف دینی ہے۔ اس لئے وہ سراپا روحانیت ہے اور خونی رشتوں سے کہیں زیادہ لطیف بھی ہے۔ اسی لئے مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے، مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔
انسانیت کی تمدنی تاریخ میں غالباً ختم نبوت کا تخیل سب سے انوکھا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ مغربی اور وسط ایشیاء کے موبدانہ تمدن کی تاریخ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے۔ موبدانہ تمدن میں زرتشتی، یہودی، نصرانی اور صابی تمام مذاہب شامل ہیں۔ ان تمام مذاہب میں نبوت کے اجزاء کا تخیل نہایت لازم تھا۔ چنانچہ ان پر مستقل انتظار کی کیفیت رہتی تھی۔ غالباً یہ حالت انتظار نفسیاتی حظ کا باعث تھی۔