ہندی مسلمانوں نے قادیانی تحریک کے خلاف جس شدت احساس کا ثبوت دیا ہے وہ جدید اجتماعیات کے طالبعلم پر واضح ہے۔ عام مسلمان جسے پچھلے دن ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں ایک صاحب نے ’’ملازدہ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ اس تحریک کے مقابلہ میں حفظ نفس کا ثبوت دے رہا ہے۔ اگرچہ اسے ختم نبوت کے عقیدہ کی پوری سمجھ نہیں۔ نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم نبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا اور مغربیت کی ہوا نے انہیں حفظ نفس کے جذبہ سے بھی عاری کر دیا ہے۔ بعض ایسے ہی نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو رواداری کا مشورہ دیا ہے۔ اگر سرہربرٹ ایمرسن (تب گورنر پنجاب) مسلمانوں کو رواداری کا مشورہ دیں تو میں انہیں معذور سمجھتا ہوں۔ کیونکہ موجودہ زمانے کے فرنگی کے لئے جس نے بالکل مختلف تمدن میں پرورش پائی ہو۔ اس کے لئے اتنی گہری نظر پیدا کرنی دشوار ہے کہ وہ ایک مختلف تمدن رکھنے والی جماعت کے اہم مسائل کو سمجھ سکے۔
ہندوستان میں حالات بہت غیرمعمولی ہیں۔ اس ملک کی بے شمار مذہبی جماعتوں کی بقاء اپنے استحکام کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیونکہ جو مغربی قوم یہاں حکمران ہے۔ اس کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ مذہب کے معاملہ میں عدم مداخلت سے کام لے۔ اس پالیسی نے ہندوستان ایسے ملک پر بدقسمتی سے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے۔ یہ مبالغہ نہ ہوگا کہ مسلم جماعت کا استحکام اس سے کہیں کم ہے۔ جتنا حضرت مسیح (علیہ السلام) کے زمانہ میں یہودی جماعت کا رومن کے ماتحت تھا۔ ہندوستان میں کوئی مذہبی سٹے باز اپنی اغراض کی خاطر ایک نئی جماعت کھڑی کر سکتا ہے اور یہ لبرل حکومت اصل جماعت کی وحدت کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتی۔ بشرطیکہ یہ مدعی اسے اپنی اطاعت اور وفاداری کا یقین دلا دے اور اس کے پیرو حکومت کے محصول ادا کرتے رہیں۔ اسلام کے حق میں اس پالیسی کا مطلب ہمارے شاعر عظیم اکبر نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ جب اس نے اپنے مزاحیہ انداز میں کہا ؎
گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ
انا الحق کہو اور پھانسی نہ پاؤ
میں قدامت پسند ہندوؤں کے اس مطالبہ کے لئے پوری ہمدردی رکھتا ہوں۔ جو انہوں نے نئے دستور میں مذہبی مصلحین کے خلاف پیش کیا ہے۱۹؎۔ یقینا یہ مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے پہلے پیش ہونا چاہئے تھا۔ جو ہندوؤں کے برعکس اپنے اجتماعی نظام میں نسلی تخیل کو دخل نہیں دیتے۔