دونوں اجزاء موجود ہوں تو نبوت ہے۔ صرف پہلا جزو موجود ہو تو تصوف اسلام میں اس کو نبوت نہیں کہتے۔ اس کا نام ولایت ہے۔
ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزاء نبوت کے موجود ہیں۔ یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور و۱۳؎اجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بناء پر قتل کیاگیا۔ حالانکہ طبری۱۴؎ لکھتا ہے۔ وہ رسالت مآب(ﷺ) کی نبوت کا مصدق تھا اور اس کی اذان میں حضور رسالت مآب(ﷺ) کی نبوت کی تصدیق تھی۱۵؎۔
لیڈنگ سٹرنگز سے مراد لیڈنگ سٹرنگز آف ریلجن نہیں۔ بلک لیڈنگ سٹرنگز آف فیوچر پرافٹس آف اسلام ہے۔ یا یوں کہیے کہ ایک کامل الہام ووحی کی غلامی قبول کر لینے کے بعد کسی اور الہام اور وحی کی غلامی حرام ہے۔ بڑا اچھا سودا ہے کہ ایک کی غلامی سے باقی سب غلامیوں سے نجات ہو جائے اور لطف یہ کہ نبی آخر الزمان(ﷺ) کی غلامی، غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے۔ کیونکہ اس کی نبوت کے احکام دین فطرت ہیں۔ یعنی فطرت صحیحہ ان کو خود بخود قبول کرتی ہے۔ فطرت صحیحہ کا انہیں خود بخود قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس واسطے عین دین فطرت ہیں۔ ایسے احکام نہیں جن کو ایک مطلق العنان حکومت نے ہم پر عائد کر دیا ہے اور جن پر ہم محض خوف سے عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام کو دین فطرت کے طور پر Realise (ثابت)کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاص مند مسلمان کا فرض یہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے۔ اس کیفیت کو میں نے لفظ Emancipation (نجات)سے تعبیر کیا ہے۔
۴… (۱)عقل اور وحی کا مقابلہ یہ فرض کر کے کہ دونوں علوم کے مواخذ ہیں درست نہیں ہے۔ علوم کے مواخذ انسان کے حواس اندرونی وبیرونی ہیں۔ عقل ان حواس ظاہری ومعنوی کے انکشافات کی تنقید کرتی ہے اور یہی تنقید اس کا حقیقی Function (منشائ، غرض وغایت) ہے اور بس۔ مثلاً آفتاب مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب کی طرف حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ یہ حواس ظاہری کا انکشاف ہے۔ عقل کی تنقید کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حواس کا انکشاف درست نہ تھا۔
(۲)وحی کا Function (منشائ، غرض وغایت) حقائق کاانکشاف ہے یا یوں کہیے کہ وحی تھوڑے وقت میں ایسے حقائق کا انکشاف کر دیتی ہے۔ جن کا مشاہدہ برسوں میں بھی نہیں کر سکتا۔ گویا وحی حصول علم میں جو Time (وقت) کا عنصر ہے اس کو خارج کرنے کی ایک ترکیب