ہے۔ انسان کی ترقی کے ابتدائی مراحل میں اس ذریعہ علم کی بے انتہاء ضرورت تھی۔ کیونکہ ان مراحل میں انسان کو ان مقامات کے لئے تیار کیا جارہا تھا جن پر پہنچ کر وہ قوائے عقلیہ کی تنقید سے خود اپنی محنت سے علم حاصل کرے۔
محمد عربی(ﷺ) کی پیدائش انسانی ارتقاء کے اس مرحلے پر ہوئی۔ جب کہ انسان کو استقرائی علم سے روشناس کرانا مقصود تھا۔ میرے عقیدہ کی رو سے بعد وحی محمدی کے الہام کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ سلسلہ تو الہام کا جاری ہے۔ مگر الہام بعد وحی محمدی حجت نہیں۔ سوائے اس کے کہ ہراس شخص کے لئے جس کو الہام ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر بعد وحی محمدی الہام ایک پرائیویٹ Fact (کسی ایک ذات سے تعلق رکھنے والی حقیقت) ہے۔ اس کا کوئی سوشل (معاشرتی وسماجی) مفہوم یا وقعت نہیں ہے۔
میں نے پچھلے خط میں لکھا تھا کہ نبوت کی دوسری حیثیت ایک Socio- Political Institution (سماجی وسیاسی مکتب فکر) کی ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ بعد وحی محمدی کسی کا الہام یا وحی ایسے Institution (مکتب فکر)کی بناء قرار نہیں پاسکتا۔ تمام صوفیہ اسلام کا یہی مذہب ہے۔ محی الدین عربی (شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ اسلامی اندلس کے ایک مشہور صوفی بزرگ جو چھٹی صدی ہجری میں پیدا ہوئے) تو الہام پانے والے کو نبی کہتے ہی نہیں۔ اس کا نام ولی رکھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام سے پہلے بنی نوع انسان میں شعور ذات کی تکمیل نہ ہوئی تھی۔ اسلام نے انسان کی توجہ علوم استقرائی کی طرف مبذول کی تاکہ انسانی فطرت فی کل الوجود کامل ہو اور اپنی ذاتی محنت سے حاصل کردہ علم کے ذریعہ سے انسان میں اعتماد علی النفس پیدا ہو۔ غرضیکہ بعد وحی محمدی میرے عقیدہ کی رو سے الہام کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ جس شخص کو ہوتا ہے اس کے لئے حجت ہو تو ہو۔ اوروں کے لئے نہیں ہے۔ اگر آج کوئی شخص کہے کہ میں نے بالمشافہ حضور رسالت مآب(ﷺ) سے مل کر دریافت کیا ہے کہ فلاں ارشاد جو محدثین آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ آپ کا ہے یا نہیں؟ اور مجھے حضور(ﷺ) نے کہا ہے کہ نہیں تو ایسا مکاشفہ اس شخص کے لئے حجت ہوگا۔ تمام عالم اسلام کے لئے نہیں۔ اگر اس قسم کے مکاشفات کو تمام عالم اسلام کے لئے حجت قرار دیا جائے تو عام تنقیدی تاریخ کا خاتمہ ہو جاتا ہے یا بالفاظ دیگر روایت ودرایت استقرائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ (انوار اقبال ص۴۴تا۴۹)
۵…
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد