درحقیقت ہماری فطرت ہی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ ’’ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (الصف:۱۱)‘‘ {اگر تم جانو تو یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔} مترجم) ہمارے لئے تو زندگی کی روحانی اساس ایمان ویقین کا معاملہ ہے۔ جس کی خاطر ایک غیر تعلیم یافتہ مسلمان بھی برضا ورغبت اپنی جان دے دے گا۔ پھر اسلام کے اس بنیادی تصور کے پیش نظر کہ وحی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہے۔ لہٰذا اب کوئی ایسی وحی نہیں کہ ہم اس کے مکلف ٹھہریں۔ ہماری جگہ دنیا کی ان قوموں میں ہونی چاہئے جو روحانی اعتبار سے سب سے زیادہ استخلاص حاصل کر چکی ہیں۔ (ہماری جگہ سب سے زیادہ استخلاص یا نجات یافتہ قوموں میں ہونی چاہئے۔ یعنی بحالت موجودہ ۔ لیکن ہم خود سب سے زیادہ استخلاص یافتہ، قوم ہیں۔ یعنی روحانی اعتبار سے جو آزادی اور حریت ہمیں حاصل ہے اور کسی قوم کو حاصل نہیں اور یہی فی الحقیقت حضرت علامہؒ کا مطلب بھی ہے۔ مترجم) شروع شروع کے مسلمانوں کو جنہوں نے ایشیائے قبل۔ اسلام کی روحانی غلامی سے نجات حاصل کی تھی۔ اسلام کے اس بنیادی تصور (خاتمیت۔ مترجم) کی ٹھیک ٹھیک حقیقت سمجھنے سے قاصر رہے۔ لیکن ہمیں چاہئے آج اپنے اس مؤقف کو سمجھیں (کہ باب نبوت ہر نوع اور ہر جہت سے مسدود ہے۔ مترجم) اور اپنی حیات اجتماعیہ کی ازسر نو تشکیل اسلام کے بنیادی اصولوں کی رہنمائی میں کریں۔ تاآنکہ اس کی وہ غرض وغایت جو ابھی تک صرف جزواً ہمارے سامنے آئی ہے۔ یعنی اس روحانی جمہوریت کا نشوونما جو اس کا مقصود ومنتہاء ہے۔ تکمیل کو پہنچ سکے۔
(تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص۲۷۶)
۳…۱۲؎ راجہ صاحب کا مضمون میں نے نہیں دیکھا۔ دیکھا تو تھا پڑھا نہیں۔ آپ اپنے مضمون میں اپنے خیالات کا اظہار کیجئے۔ ان کے خیالات کی تردید ضروری نہیں۔
نبوت کے دو اجزاء ہیں:
۱… خاص حالات وواردات، جن کے اعتبار سے نبوت روحانیت کا ایک مقام خاص تصور کی جاتی ہے۔ (مقام، تصوف اسلام میں ایک اصطلاح ہے)
۲… ایک Socio- Political Institutionقائم کرنے کا عمل یا اس کا قیام۔ اس Institution کا قیام گو ایک نئی اخلاقی فضا کی تخلیق ہے۔ جس میں پرورش پاکر فرد اپنے کمالات تک پہنچتا ہے اور جو فرد اس نظام کا ممبر نہ ہو یا اس کا انکار کرے۔ وہ ان کمالات سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس محرومی کو مذہبی اصطلاح میں کفر کہتے ہیں۔ گویا اس دوسرے جزو کے اعتبار سے نبی کا منکر کافر ہے۔