انبیاء کے احوال وواردات سے مختلف نہیں۔ ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکی ہے۔ قرآن مجید نے آفاق وانفس۱۱؎ دونوں کو علم کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اس کا ارشاد ہے کہ آیات الٰہیہ کا ظہور محسوسات ومدرکات (محسوسات، یعنی ہماری واردات شعور، ہمارے داخلی احوال اور تجربات اور مدرکات، یعنی ہمارے وہ مشاہدات جن کا تعلق عالم فطرت کے مطالعہ سے ہے۔ مترجم) میں خواہ ان کا تعلق خارج کی دنیا سے ہو یا داخل کی۔ ہر کہیں ہورہا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہر پہلو کی قدروقیمت کا کما حقہ، اندازہ کریں اور دیکھیں کہ اس سے حصول علم میں کہاں تک مدد مل سکتی ہے۔ (لہٰذا اس کی تنقید لازم ٹھہری۔ مترجم) حاصل کلام یہ کہ تصور خاتمیت سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ زندگی میں اب صرف عقل ہی کا عمل دخل ہے۔ جذبات کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ بات نہ کبھی ہوسکتی ہے، نہ ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ واردات باطن کی کوئی بھی شکل ہو ہمیں بہرحال حق پہنچتا ہے کہ عقل اور فکر سے کام لیتے ہوئے اس پر آزادی کے ساتھ تنقید کریں۔ اس لئے کہ اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدۃً یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے۔ لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خاتمیت کا تصور ایک طرح کی نفسیاتی قوت ہے۔ جس سے مقصود یہ ہے کہ انسان کی باطنی واردات اور احوال کی دنیا میں بھی علم کے نئے نئے راستے کھل جائیں (اور ہم ان کا مطالعہ عقل وفکر اور تعلیمات نبوت کی روشنی میں کریں۔ مترجم) بعینہ جس طرح اسلامی کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے جزو اوّل نے انسان کے اندر یہ نظر پیدا کی کہ عالم خارج کے متعلق اپنے محسوسات ومدرکات (بالفاظ دیگر مظاہر فطرت یا قوائے طبیعیہ۔ مترجم) کا مطالعہ نگاہ تنقید سے کرے اور قوائے فطرت کو الوہیت کا رنگ دینے سے باز رہے۔ (یعنی ان کو دیوی دیوتا تصور نہ کرے۔ مترجم) جیسا کہ قدیم تہذیبوں کا دستور تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ صوفیانہ واردات کو خواہ ان کی حیثیت کیسی بھی غیرمعمولی اور غیر طبعی کیوں نہ ہو۔ ایسا ہی فطری اور طبعی سمجھیں۔ جیسے اپنی دوسری واردات اور اس لئے ان کا مطالعہ بھی تنقید تحقیق کی نگاہوں سے کریں۔ آنحضرتﷺ کا طرز عمل بھی یہی تھا۔ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص۱۹۰)
۲… یقین کیجئے! یورپ سے بڑھ کر آج انسان کے اخلاقی ارتقاء میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں۔ برعکس اس کے مسلمانوں کے نزدیک ان بنیادی تصورات کی اساس چونکہ وحی وتنزیل پر ہے۔ جس کا صدور ہی زندگی کی انتہائی گہرائیوں سے ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی ظاہری خارجیت (بمقابلہ ہماری ذات کے۔ مترجم) کو ایک اندرونی حقیقت میں بدل دیتی ہے۔ (کیونکہ اس سے