استقرائی کو (عالم فطرت کی تسخیر اور زندگی کو واقعیت کی نظر سے دیکھنے کی خاطر۔ مترجم) اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیائے قدیم نے بڑے بڑے عظیم نظامات فلسفہ پیدا کئے۔ (تعلیمات نبوت سے باہر محض حکیمانہ غور وفکر کی بدولت۔ مثلاً ارض یونان یا قدیم ہندوستان میں۔ مترجم) مگر یہ اس وقت جب انسان اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا اوراس پر ایماء اور اشارے کا غلبہ تھا۔ (یعنی وہ اپنی عقل اور سمجھ کی بجائے وہی کچھ کرنے لگتا تھا جو دوسرے کرتے تھے۔ مترجم) لہٰذا ماضی کے یہ فلسفیانہ نظامات مجرد فکر کی بناء پر مرتب ہوئے۔ لیکن مجرد فکر کی بناء پر ہم زیادہ سے زیادہ کچھ کر سکتے ہیں تو یہ کہ مذہبی عقائد اور مذہبی روایات میں تھوڑا بہت ربط وترتیب پیدا کر دیں۔ رہا یہ امر کہ عملی زندگی میں ہمیں جن احوال سے فی الواقع گزرنا پڑتا ہے۔ ان پر قابو حاصل کیا جائے تو کیسے؟ اس کا فیصلہ فکرمجرد کی بناء پر نہیں کیا جاسکتا۔ (اور یہی فی الحقیقت مسئلہ ہے زندگی کا خواہ اس میں کوئی بھی راستہ اختیار کیا جائے۔ مترجم) اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلامﷺ کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے۔ (جس کا ظہور آپ کی تعلیمات کی بدولت ہوا۔ مترجم) بہ اعتبار اپنے سرچشمۂ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے۔ (جس کی آپ نے رہنمائی کی۔ مترجم) لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے۔ یہ آپ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم وحکمت کے وہ تازہ سرچشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رخ کے عین مطابق تھے۔ (یعنی جن کی زندگی کو رہنمائی کے لئے ضرورت تھی۔ مترجم) لہٰذا اسلام کا ظہور جیسا کہ آگے چل کر خاطر خواہ طریق پر ثابت کر دیا جائے گا۔ استقرائی عقل کا ظہور ہے۔
اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی۔ لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہوگیا۔ اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ذات کی تکمیل ہوگی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ (جیسا کہ تعلیمات قرآنی کا مقصود بھی ہے۔ مترجم) یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا یا باربار عقل اور تجربے پر زور دیا یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے (کہ انسان اپنے وسائل سے کام لے۔ اس کے قوائے فکر وعمل بیدار ہوں اور وہ اپنے اعمال وافعال کا آپ جواب دہ ٹھہرے۔ مترجم) کیونکہ یہ سب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔ لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حیات انسانی اب واردات باطن سے، جو باعتبار نوعیت (ان معنوں میں کہ اس کا تعلق ادراک بالحواس سے نہیں۔ مترجم)