ہے۔ یا کسی پودے کا زمین کی پہنائیوں میں آزادانہ سرنکالنا یا کسی حیوان میں ایک نئے ماحول کے مطابق کسی نئے عضو کا نشوونما یا انسان کا خود اپنی ذات اور وجود میں زندگی کی گہرائیوں سے نور اور روشنی حاصل کرنا۔ یہ سب وحی کی مختلف شکلیں ہیں۔ جو اس لئے بدلتی چلی گئیں کہ اس کا تعلق جس فرد سے تھا یا جس نوع میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ اس کی مخصوص ضروریات کچھ اور تھیں۔ اب بنی نوع انسان کے عالم صغر سنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشوونما (جس کا اظہار غور وفکر ارادہ اختیار ، ادراک وتعقل، حکم، تصدیق یعنی اعمال ذہنی میں ہوتا ہے۔ مترجم) شعور کی وہ صورت اختیار کر لے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے اور جس کے معنی یہ ہیں کہ اس شعور کی موجودگی میں نہ تو افراد کو خود کسی چیز پر حکم لگانا پڑے گا۔ نہ ان کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ ان کی پسند کیا ہو اور ناپسندیدگی کیا؟ انہیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے لئے کیا راہ عمل اختیار کریں؟ یہ سب باتیں گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہوں گی۔ یہ نہیں کہ انہیں اس بارے میں خود اپنے فکر اور انتخاب سے کام لینا پڑے۔ (معروف ومنکر، امراور نہی کی تعیین میں ’’لقد ارسلنا رسلنا بالبینت وانزلنا معہم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط (الحدید:۲۵)‘‘ {ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور ترازو تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔}) شعور نبوت کو گویا کفایت فکر اور انتخاب سے تعبیر کرنا چاہئے۔ (کیونکہ اس طرح ہمیں فرداً فرداً ان امور کا فیصلہ نہیں کرنا پڑتا۔ صرف ایک فرد کا حکم اور انتخاب ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہوتا ہے۔ مترجم) لیکن جہاں عقل نے آنکھ کھولی (تاکہ ذہن انسانی کو خود اپنی بصیرت، فہم اور تدبر سے کام لینے کا موقع ملے۔ یہ امر بھی منجملہ ان مقاصد کے ہے جو نبوت کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ مترجم) اور قوت تنقید بیدار ہوئی تو پھر زندگی کا مفاد اسی میں ہے کہ ارتقائے انسانی کے اوّلین مراحل میں ہماری نفسی توانانی کا اظہار جن ماورائے عقل طریقوں سے ہوا تھا۔ ان کا ظہور اور نشوونما رک جائے۔ انسان جذبات کابندہ ہے اور جبلتوں سے مغلوب رہتا ہے۔ (جن کو اگر ٹھیک راستے پر نہ ڈالا جائے تو ایک دوسرے سے رقابت اور فساد اخلاق کو تحریک ہوتی ہے۔ جس کا انجام ہے ہلاکت۔ مترجم) وہ اپنے ماحول کی تسخیر کرسکتا ہے تو عقل استقرائی کی بدولت (جس میں وہ اصول علم کی بناء پر عالم خارجی کا مطالعہ کرتا ہے۔ مترجم) لیکن عقل استقرائی اس کے اپنے حاصل کرنے کی چیز ہے (تجربے اور امتحان، مشاہدے اور تحقیق وتجسس کی حدود سے۔ مترجم) جسے ایک دفعہ حاصل کر لیا جائے توپھر مصلحت اسی میں ہے کہ حصول علم کے اور جتنے بھی طریق ہیں ان پر ہر پہلو سے بندشیں عائد کر دی جائیں تاکہ مستحکم کیا جائے تو صرف عقل