ساختہ پکار اٹھا۔
I have no doubt in my mind that the ahmadis are traitors both to Islam and to India. (Thoughts and Reflections of Iqbal P:306, By Syed Abdul Wahid.)
کہ ’’میں اپنے ذہن میں اس امر کے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ قادیانی اسلام اور ہندوستان (تب ہندوستان ایک تھا) دونوں کے غدار ہیں۔‘‘ اور ببانگ دہل یہ مطالبہ کر دیا کہ: ’’حکومت قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگا اور مسلمان ان سے ویسی رواداری سے کام لے گا جیسی وہ باقی مذاہب کے معاملہ میں اختیار کرتا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۹)
اور کہا: ’’ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۸)
اگر اقتدار حضرت علامہؒ کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ قادیانیت کو آئینی احتساب کے شکنجے میں یوں جکڑتے کہ وہ بالکل بے دست وپا ہو کر رہ جاتی اور یہ تو امر واقعہ ہے کہ جہاں تہاں ان کا بس چلا، انہوں نے جکڑا بھی۔ انجمن حمایت اسلام کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اس کے مرزائی ارکان کو جب تک بھرے اجلاس سے نکلوانہ دیا کرسی صدارت پر تشریف فرمانہ ہوئے۔
اور جب بقول عاشق حسین بٹالوی احرار کے اصرار پر مسلم لیگ کے پارلیمنٹری بورڈ نے اپنے حلف نامے میں یہ شق رکھی کہ: ’’میں اقرار صالح کرتا ہوں۔ اگر میں آئندہ پنجاب اسمبلی میں نامزد ہوکر کامیاب ہوگیا تو اسلام اور ہندوستان کے مفاد کی خاطر مرزائیوں کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت قرار دئیے جانے کے لئے انتہائی کوشش کروں گا۔‘‘
(اقبال کے آخری دو سال ص۳۴۱، عاشق حسین بٹالوی)
تو حضرت علامہؒ نے بحیثیت صدر پنجاب مسلم لیگ اس کی توثیق فرماکر قادیانیت کو سیاسی سطح پر ایک اور ضرب کاری لگائی۔ (اگرچہ ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ کے مؤلف نے اس تاریخی حقیقت کو مسخ کر کے قادیانیت کو سپورٹ کرنے کی بے حد کوشش کی ہے۔ مگر بات بنی نہیں۔