عاشق حسین بٹالوی ہوں یا عبدالمجید سالک، حضرت م ش ہوں یا کوئی اور کسی میں اتنا بوتا نہیں کہ قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کر سکے۔ مرتب) سچ تو یہ ہے کہ حضرت علامہؒ قادیانیت سے اس درجہ نفرت کرنے لگ گئے تھے کہ ان کے نزدیک اس سے بڑا معاشرتی ناسور کوئی نہ تھا۔ یہ ۱۹۳۰ء یا اس سے کچھ پہلے کی بات ہے۵؎۔ حضرت علامہؒ کے بڑے بھائی (شیخ عطاء محمد صاحب) نے اپنی ایک لڑکی کی شادی کے سلسلہ میں ان سے ایک رشتہ کا ذکر کیا اور ان کی رائے دریافت کی۔ لڑکا اور اس کے والدین ختم نبوت کے منکرین میں سے تھے۔ آپ نے جواب دیا: ’’بھائی صاحب! اگر میری اپنی بیٹی ہوتی تو میں ہرگز ہرگز یہاں شادی نہ کرتا۔‘‘
یہ تھی حضرت علامہؒ کی دینی حمیت، ملی غیرت اور سیاسی بصیرت۔ حیرت ہے اس کے باوجود اقبال کے نام پر روٹیاں توڑنے والے بزرجمہر قادیانیت کے بارے میں مداہنت کرتے، سیاسی جماعتیں پہلو بچاتیں اور لیڈر کنی کتراتے ہیں۔ سچ کہا تھا اقبالؒ نے: ’’علماء میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیاء اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت وعزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں۔‘‘
(چوہدری نیاز علی کے نام خط مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۳۷ئ، مندرج مکاتیب اقبال ج۱ ص۲۵۰، شیخ عطاء اﷲ)
قادیانی اکثر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کا جنونی مسلمان مذہب کے پردے میں ان کے مال وجان اور آبرو کے درپے ہے۔ لیکن یہ درست نہیں، قادیانیوں کا واویلا صرف اس لئے ہے کہ وہ احتساب سے بچے رہیں۔ مگر حضرت علامہؒ کے افکار وخیالات کی روشنی میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کوئی مسلمان بھی قادیانیوں کا بحیثیت انسان مخالف نہیں۔ نہ ان کی عزت وآبرو کا دشمن ہے۔ البتہ ان کی مضرت سے بچنا اپنا قدرتی حق خیال کرتا ہے۔ اگر جمہور مسلمانوں کے اس حق کا احترام کرتے ہوئے قادیانیوں کو جدا گانہ اقلیت قرار دے دیا جائے تو یہ ایک ایسا عمل ہوگا جو کئی ایک مفاسد کی روک تھام کرے گا۔ قادیانیوں کو حضرت علامہؒ کے اٹھائے ہوئے اس مطالبہ پر غور کرنا چاہئے۔ یہ ان کے فائدے کی بات ہے اور پھر جب ان کے پیغمبر اور اس کے جانشینوں کے نزدیک بھی وہ جمہور مسلمانوں سے ایک الگ امت ہی ہیں۶؎۔
تو پھر آئینی طور پر اس علیحدگی میں انہیں کیا قباحت نظر آتی ہے؟ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہر لحاظ سے نہایت معقول ہے کہ جب قادیانی مذہب اور معاشرتی طور پر مسلمانوں سے الگ ہیں تو