مشرق، حکیم امت اور مصور پاکستان اقبالؒ نے تولا واقعہ یہ ہے کہ یہ انہی کا حق تھا۔ یہ الگ بات کہ آج ان کی تصویر… پاکستان… میں یہ رنگ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ نظریۂ خاتمیت کو جدید رنگ میں پیش کرنے کا شرف سب سے پہلے حضرت علامہؒ ہی کو حاصل ہوا۔ انہوں نے قادیانیت کو نہ صرف ہندوستان میں بے نقاب کیا۔ بلکہ یورپ میں بھی اس کے خلاف آواز سب سے پہلے حضرت علامہؒ ہی نے اٹھائی۔
ختم نبوت کا مسئلہ مسلمانوں کے دل ودماغ کا مسئلہ ہے اور اس کے لئے مسلمان شروع ہی سے بڑا حساس رہا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کی نسبت امام موفق بن احمد المکیؒ لکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے سچا ہونے کی نشانیاں دکھلانے کی خاطر مہلت چاہی، امام صاحبؒ نے سنا تو فرمایا۔ جس کسی نے اس متنبی سے کوئی علامت طلب کی کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ اس طرح نبی کریمﷺ (فداہ امی وابی) کے فرمان ’’لانبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کی تکذیب لازم آتی ہے۔ (مناقب موفق ج۱ ص۱۶۱، مطبوعہ حیدرآباد دکن)
امام المورخین علامہ ابن خلدونؒ کے مطابق مسلمانوں میں سب سے پہلا اجماع اسی نظریہ کے تحفظ پر ہوا۔ (خاتم النبیین ص۳۳، علامہ انور شاہ کاشمیریؒ)
اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں سینکڑوں صحابہؓ وتابعینؓ نے جن کی اکثریت حفاظ قرآن پر مشتمل تھی اپنے مقدس خون کا نذرانہ دے کر اس پردہ ناموس دین مصطفی اور سر وحدت ملت کی محافظت کافرض ادا کیا۔ (تاریخ طبری البدایہ والنہایہ اور تاریخ ابن خلدون)
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
حضرت علامہؒ بلاشبہ اس دور کے ایک عظیم مسلمان مفکر وفلسفی تھے۔ تاریخ اسلام اور قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی اور وہ خوب جانتے تھے کہ قوموں کا شیرازہ کیسے مجتمع ہوتا اور کیونکر بکھر جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی وحدت دو چیزوں سے عبارت تھی:
الف… توحید۔ ب… ختم نبوت۔
اور بقول ان کے: ’’دراصل عقیدہ ختم نبوت ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن کہ (فلاں) فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں؟‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۶)
چنانچہ جب ’’فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں‘‘ کا نغمہ الاپنے اور ’’لا نبی بعدی‘‘ کو حفظ سروحدت ملت ازو بتانے والے نے قادیانیت کا بغور مطالعہ وتجزیہ کیا تو بے