اسلام اور علاقہ کے بااثر زمینداروں نے مطالبہ کیا کہ تمہیں اپنے وعدہ کے مطابق دوسرے مضمون پر مناظرہ کرنا پڑے گا۔ تم مرزاقادیانی کو چھپا کر کیوں رکھتے ہو؟ اسے دنیا کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اس کے عمل وکردار کو دیکھ کر صحیح فیصلہ کر سکیں۔
۲۰؍اپریل۱۹۶۵ء کو دوسرا مناظرہ طے ہوا
آخر دو تین گھنٹہ کی بحث وتکرار کے بعد جب راہ فرار کے لئے کوئی چارہ کار گر نہ ہوا تو ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق مہر محمد حیات نے اپنے مناظرین سے مشورہ کر کے یہ تحریر دی کہ ۲۰؍اپریل۱۹۶۵ء صبح ۹بجے اسی جگہ پر دوسرا مناظرہ ہوگا۔ جس میں دو مسئلے ہوں گے۔ پہلا مسئلہ ’’حیات عیسیٰ علیہ السلام‘‘ اس میں مدعی مسلمان ہوں گے۔ دوسرا صدق وکذب مرزاقادیانی (مرزاقادیانی کی سیرت وکردار) اس میں مدعی جماعت قادیانی ہوگی۔ فریقین کے دستخطوں سے یہ تحریر ہر دو فریق کے علماء کے سپرد کر دی گئی۔
ختم نبوت کے موضوع پر پہلا مناظرہ
اس تصفیہ کے بعد ختم نبوت کے موضوع پر اسی دن مورخہ ۱۰؍اپریل۱۹۶۵ء ٹھیک سوابارہ بجے مناظرہ شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کی طرف سے اس مناظرہ کے صدر فاتح ربوہ حضرت مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹیؒ اور مناظر: مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین صاحب اخترؒ مقرر ہوئے۔ مرزائیوں کی طرف سے صدر مولوی احمد خان نسیم اور مناظر قاضی نذیر احمد لائل پوری مقرر ہوئے۔ یہ مناظرہ پانچ گھنٹے کے قریب نہایت پرامن طریق سے جاری رہا۔ چوکی ربوہ (چناب نگر) کی پولیس جن کو مرزائی منظوری لے کرلائے تھے موجود تھی۔ سی۔آئی۔ڈی کے نمائندے بھی موجود تھے۔
مرزائی مناظر کی بے بسی اور بدحواسی
اس مناظرہ میں مرزائی مناظر کی جو ذلت اور رسوائی ہوئی اور جس طرح اس نے بری شکست کھائی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس دوسرے مناظرہ کے لئے انہیں میدان میں آنے کی ہمت اور