جرأت نہیں ہوسکی۔ قاضی صاحب کی بے بسی وبدحواسی کے افسانے ہر خاص وعام کی زبان پر جاری ہیں۔ چنانچہ ایک حوالہ پر جب قاضی نذیر قادیانی کو قسم کے لئے مجبور کیاگیا تو قاضی صاحب نے ان الفاظ میں قسم اٹھائی: ’’مجھے اس اﷲ کی ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان نہیں۔‘‘ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ کی آوازیں۔
مولانا لال حسین صاحب اخترؒ نے پانچ پانچ صد روپیہ انعام کا بارہا چیلنج کیا۔ لیکن قاضی صاحب کو میز پر پڑی ہوئی انعامی رقم اٹھانے کی ہمت نہ ہوسکی۔ اس کے برعکس ایک دفعہ قاضی صاحب غلطی سے انعام کا چیلنج کر بیٹھے۔ پیچھے سے ان کے ایک مخلص معتقد نے پانچ پانچ روپے کے دو نوٹ نکال کر بطور انعام پیش کر دئیے۔ مولانا نے حوالہ دکھانے سے قبل
جب وہ دس روپے کسی ثالث کے پاس رکھنے کو کہا تو قاضی صاحب نے فوراً وہ دس روپے جیب میں ڈال لئے۔ اس وقت قادیانی جماعت کی حالت قابل دید تھی۔ اس مسئلہ میں مدعی مولانا لال حسین صاحب اخترؒ تھے۔ چنانچہ آخری تقریر پر مناظرہ ختم ہوا۔
۲۰؍اپریل۱۹۶۵ء کے دوسرے مناظرہ اور اس کے بعد مباہلہ کا اعلان
اختتام مناظرہ پر مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے لائوڈ سپیکر پر ۲۰؍اپریل کے دوسرے مناظرے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیاگیا کہ اس دوسرے مناظرہ کے اختتام پر اسی میدان میں دعائے مباہلہ ہوگی۔ خلیفہ ربوہ کی طرف سے جو صاحب بھی سند نمائندگی لائیں گے ان سے مباہلہ ہوگا۔ مولانا موصوف نے اپنی سندات نمائندگی جو ملک کی چار مشہور جماعتوں کی طرف سے حاصل ہیں پڑھ کر سنائیں۔ جن کی مصدقہ نقول مولوی ابوالعطاء اﷲ دتہ جالندھری قادیانی کے مطالبہ پر خلیفہ ربوہ کو بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاچکی تھیں۔
۱۹؍اپریل۱۹۶۵ء کو علماء اسلام کی آمد
چنانچہ اس اعلان کے مطابق مسلمانوں کی طرف سے مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ، مفکر اسلام علامہ خالد محمود صاحب پروفیسر ایم۔اے او کالج لاہور، فاتح ربوہ مولانا منظور احمد