رکھنے والے حضرات اس آیت مبارکہ کے مطابق پکے گمراہ اور جہنمی ہیں۔
چوتھی دلیل ’’قال سبحانہ وتعالیٰ وما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لہم الذی اختلفوا فیہ (النحل:۶۴)‘‘ {اور ہم نے اتاری آپ پر کتاب اسی واسطے کہ کوکھول کر سنا دیں ان کو کہ جس میں جھگڑ رہے ہیں۔}
’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم (النحل:۴۴)‘‘ {اور اتارا ہم نے آپ کی طرف قرآن تاکہ آپ بیان کردیں لوگوں کو جو کچھ نازل کیاگیا ان کی طرف۔}
ناظرین کرام! اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کو دنیا میں اس لئے بھیجا تاکہ ہر گمراہی وبدعت کا قلع قمع فرمادیں اور قرآن مجید کی آیات مبارکہ کے مفہوم مطالب واضح کر کے سمجھائیں۔ اس لئے ناممکن تھا کہ حضور اکرمﷺ کوئی ایسی بات فرماتے جس سے کسی قسم کی غلط فہمی یا گمراہی پھیلنے کا خطرہ ہوسکتا۔ حضور اکرمﷺ کو قرآن مجید میں مؤمنین کے لئے ’’حریص علیکم‘‘ اور ’’رؤف ورحیم‘‘ فرمایا گیا ہے۔ حضور اکرمﷺ اپنی امت پر رفیق وشفیق تھے اور ’’علمک مالم تکن تعلم وکان فضل اﷲ علیک عظیما‘‘ کی آیت مبارکہ حضور اکرمﷺ کے وسعت علم پر دال ہے۔
رسول اکرمﷺ نے بیشمار احادیث میں فرمایا کہ مسیح ابن مریم نازل ہوگا۔ احادیث نبویہ میں مسیح ابن مریم، عیسیٰ ابن مریم یا ابن مریم تین قسم کے الفاظ موجود ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک دفعہ بھی غلام احمد ابن چراغ بی بی نہیں فرمایا؟ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے تھے تو کیا وجہ ہے کہ کسی ضعیف سے ضعیف حدیث بلکہ کسی موضوع حدیث میں بھی کسی صحابی کا یہ سوال کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہوچکے ہیں۔ نزول مسیح سے کیا مراد ہے؟ منقول نہیں ہے۔
مرزائیو! ؎
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
ناظرین کرام! صحابہ کرامؓ جو دین کے معاملہ میں بہت محتاط تھے، کیا وجہ ہے کہ تمام عمر یہ سنتے رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ مگر کسی